وزیراعظم شہباز شریف کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ نے عندیہ دیا ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے بات چیت کے لیے تیار ہے۔
جمعرات کی شب جیو نیوز کے پروگرام ’آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ‘ میں گفتگو کے دوران میزبان نے سوال کیا کہ ایک ایسے وقت جب آج بھی اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے درمیان تنازع موجود ہے، تو کیا حکومت ان (پی ٹی آئی) سے مذاکرات کرنے کو تیار ہے؟
جس پر رانا ثنا اللہ نے جواب دیا کہ ’بطور سیاسی جماعت اور حکومت کے طور پر ہماری سوچ ہے کہ جمہوری نظام میں حکومت اور حزب اختلاف گاڑی کے دو پہیوں کی مانند ہوتے ہیں، دونوں مل کر چلیں تو (ملک کی) گاڑی آگے بڑھے گی۔ اس لیے بالکل ہم بات چیت پر یقین رکھتے ہیں اور (پی ٹی آئی) سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔‘
رانا ثنا اللہ کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب پاکستان تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان مذاکرات کی خبریں کئی روز سے گردش کر رہی ہیں۔
تاہم یہ خبریں سات مئی کو اس وقت دم توڑ گئیں جب پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل احمد شریف نے ایک پریس کانفرنس کے دوران پاکستان تحریک انصاف کا نام لیے بغیر کہا کہ ’انتشاری ٹولے سے کوئی بات نہیں ہو سکتی۔‘
نو مئی 2023 کو پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے خلاف ملک بھر میں پر تشدد واقعات ہوئے تھے، جن کے دوران فوجی تنصیبات اور نجی و قومی املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔
ان واقعات میں ملوث ہونے کے الزام میں سینکڑوں افراد کو گرفتار کیا گیا، جن میں سے 100 سے زائد کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے گئے اور بیشتر اب بھی ان کا سامنا کر رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گذشتہ روز نو مئی 2023 ہونے والے پرتشدد واقعات کو ایک سال مکمل ہونے پر بھی آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے پی ٹی آئی کا نام لیے بغیر کہا تھا کہ ’جنہوں نے تاریخ کا یہ سیاہ باب رقم کیا ایسی ذہنیت کے منصوبہ سازوں اور کرداروں کے ساتھ نہ کوئی سمجھوتہ ہوسکتا ہے اور نہ ہی ڈیل۔‘
آرمی چیف نے مزید کہا تھا کہ ’نو مئی کے منصوبہ سازوں، سہولت کاروں اور مجرموں کو ملکی قانون کے مطابق انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔‘
اس وقت کی حکومت، پنجاب پولیس اور پاکستانی فوج کے ترجمان نے ان واقعات کا ذمہ دار پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان اور قیادت کو ٹھہرایا تھا، تاہم پی ٹی آئی کی قیادت نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اس معاملے کی تحقیق کے لیے جوڈیشل کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا ہے۔
سابق وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے انٹرویو کے دوران مزید کہا کہ ’عمران خان کی گرفتاری کے بعد یہ تو پتہ تھا کہ پی ٹی آئی احتجاج کرے گی لیکن یہ نہیں پتہ تھا کہ وہ اداروں پر حملے اور دھاوا بول دے گی، حملے کا پتہ ہوتا تو انتظام کچھ اور ہوتا، حکومت سمجھتی تھی کہ پی ٹی آئی والے ویسے ہی احتجاج کریں گے جیسے سیاسی لوگ کرتے ہیں، چوک پر آئیں گے نعرے لگائیں گے، لیکن انہوں نے جو کچھ کیا حکومت اس کے لیے تیار نہیں تھی۔‘
رانا ثنا اللہ نے کہا کہ آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل ہونے دیا جاتا تو 30 دن میں فیصلے ہوجاتے کیوں کہ اس حوالے سے اتنے شواہد ہیں کہ کسی قسم کا کوئی ابہام ہے ہی نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ نو مئی کے واقعات کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن بنا تو مزید تین سال گزر جائیں گے۔ انہوں نے نظام عدل میں اصلاحات پر بھی زور دیا۔
ایک اور پروگرام میں رانا ثنا اللہ نے مزید کہا کہ اعلیٰ عدالتوں کی جانب سے ازخود نوٹس لینے کے اختیارات نے ملک میں معاملات کو مزید بگاڑ دیا ہے۔ انہوں نے نو مئی کے ملزمان کے ٹرائل میں تاخیر پر افسوس کا اظہار کیا۔
رانا ثنا اللہ نے مزید کہا کہ انصاف کی فراہمی میں ناکامی کے لیے ’ملک کا عدالتی نظام اور پاکستان کا آئین ذمہ دار ہے۔‘