آسٹریلیا میں برطانوی خاتون کو چاقو مار کر قتل کرنے والے نوجوان کو قتل کے جرم میں 14 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ دو بچوں کی ماں 41 سالہ ایما لوویل پر 2022 میں باکسنگ ڈے کی تعطیل کے موقعے پر کوئنز لینڈ کے علاقے نارتھ لیکس میں ان کے گھر میں گھسنے والے دو نوعمر لڑکوں نے حملہ کر دیا۔
لوویل اور ان کے شوہر نے دونوں لڑکوں کا مقابلہ کیا جس پر لڑکے ان پر حملہ آور ہو گئے۔ بعد میں مذکورہ خاتون دل پر چاقو لگنے چل بسیں۔
برسبین کی سپریم کورٹ نے پیر کو نوجوان حملہ آور کو سزا سنائی۔ اب ان کی عمر 19 سال ہے تاہم ان کا نام ظاہر نہیں کیا جائے گا کیوں کہ جرم کے وقت وہ نابالغ تھے۔
جسٹس ٹام سلیوان نے کہا کہ برطانوی خاتون کا قتل ’خاص طور پر گھناؤنا‘ جرم ہے۔
جج نے متاثرین کو ’پیارا خاندان‘ قرار دیا جو ایک نئے ملک میں آ کر آباد ہونے کی کوشش میں مصروف تھے۔
جسٹس سلیوان نے کہا: ’وہ عام شہری تھے جو اپنے گھر میں خاندانی زندگی سے لطف اندوز ہو رہے تھے جہاں وہ اپنے آپ کو محفوظ محسوس کرنے کے حقدار تھے۔ جو کچھ ہوا اس سے اس بنیادی انسانی حق کی مکمل خلاف ورزی ہوئی۔‘
لوویل اور ان کے شوہر لی 2011 میں اپنی بیٹیوں کے ساتھ سفوک سے برسبین منتقل ہوئے۔ حملے میں ان کے شوہر بھی زخمی ہوئے۔
نوجوان نے اس سال مارچ میں قتل کا اعتراف کیا۔ انہوں نے نقب زنی اور حملے کے الزامات کا بھی اعتراف کیا۔
ایک اور ملزم جن پر اس مقدمے میں فرد جرم عائد کی گئی ہے، نے ابھی تک عدالت میں جواب داخل نہیں کیا۔ ان کے مقدمے کی اس مہینے کے آخر میں سماعت کی جائے گی۔
چاقو سے حملہ متاثرہ خاندان کے گھر کے باہر کیا گیا جو سی سی ٹی وی میں ریکارڈ ہو گیا۔ اس واقعے کی ویڈیو فوٹیج کمرہ عدالت میں لوگوں کو دکھائی گئی جن میں لوویل کی دو بیٹیاں، ان کے شوہر اور دیگر شامل تھے۔
عدالت کو بتایا گیا کہ برسبین سے تقریباً 45 کلومیٹر (30 میل) شمال میں واقع نارتھ لیکس کے مضافاتی علاقے میں واقع ان کے گھر میں کتوں کے بھونکنے سے جوڑے کی آنکھ کھل گئی۔
باغ کے باہر، لوویل کو 11.5 سینٹی میٹر کے چاقو سے ان کے دل کے مقام پر وار کیا گیا۔ جائے وقوع پر پہنچنے والی پولیس نے دیکھا کہ ان کی دو نوعمر بیٹیاں رو رہی ہیں اور مدد کے لیے پکار رہی ہیں۔ بعد ازاں طبی عملے نے ان کے گھر کے سامنے والے لان میں خاتون کے دل کا آپریشن کیا۔
ہسپتال لے جانے کے کچھ ہی دیر بعد لوویل کی موت واقع ہو گئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خاتون کی موت کے بعد آسٹریلیا میں بڑے پیمانے پر غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور بالآخر کوئنز لینڈ کی ریاست نے کم عمری میں جرائم کے خلاف سخت قوانین منظور کیے۔
کوئنزلینڈ کے قانون کے مطابق جرم کی صورت میں نابالغ افراد کو عام طور پر انہیں سنائی گئی سزا کا زیادہ سے زیادہ 70 فیصد پورا کرنے کا حکم دیا جا سکتا ہے، بشرطیکہ خصوصی حالات اس کے برعکس نہ ہوں۔
جسٹس سلیوان نے کہا کہ نوجوان کا جرم پرتشدد فعل کے زمرے میں آتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ وہ اسے 10 سال سے زیادہ قید کی سزا دے سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’اس معاملے میں جرم کو بہیمانہ اور ایسا قرار دینا درست ہے جس سے عام لوگوں میں غم و غصہ پیدا ہونا تھا۔‘
لی لوویل، جنہوں نے نوجوان کو عمر قید کی سزا دینے کا مطالبہ کیا، نے کہا کہ وہ پیر سنائے گئے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ انصاف نہیں ہے کیوں کہ ان کی اہلیہ کو کچھ بھی واپس نہیں لا سکے گا۔
انہوں نے کہا: ’نہیں، مجھے نہیں لگتا کہ انصاف ہوا ہے۔ 10 سال قید کی سزا سنائی گئی، اگرچہ یہ ان کی توقعات سے زیادہ ہے۔‘
’میرے خیال میں 14 سال کی سزا سنائی جاتی تو اچھا ہوتا لیکن یہ بھی کبھی کافی نہیں ہو گی۔ اس سے ایما کبھی واپس نہیں آئیں گی۔‘
© The Independent