کلائمیٹ چینج اتھارٹی بنانے میں تاخیر کیوں؟

حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کلائمیٹ چینج ایکٹ 2017 میں منظور کیا گیا تھا لیکن اب تک اس کے تحت اتھارٹی کا قیام نہیں ہوا۔

26 جون، 2023 کو لاہور میں ایک سبزی فروش بارشوں سے ڈوبی ہوئی سڑک پر کام کر رہا ہے (اے ایف پی)

پاکستان نے ’ال نینیو‘ کے باعث گذشتہ ماہ غیر معمولی بارشوں کا مشاہدہ کیا۔ اس حوالے سے امریکی نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفیرک ایڈمنسٹریشن نے پہلے ہی مطلع کر دیا تھا کہ ال نینیو ایک بار سامنے آئے گا۔

اگر تاریخ کو دیکھا جائے تو ال نینیو ہر چار یا پانچ سال بعد آتا ہے اور یہی اس کا وقت ہے تاہم ایسا ال نینیو جو بہت شدت کا ہو ہر 10 سے 15 سال بعد آتا ہے۔
 
یہ بہت حیرت کی بات ہو گی کہ اگر اس سال آنے والا ال نینیو بہت زیادہ شدت کا ہو کیونکہ آخری بار شدت والا ال نینیو 2015 اور 2016 میں آیا تھا۔
 
موسمیاتی تبدیلی ایسا خطرہ ہے جو اس وقت ہمیں درپیش ہے اور جو آنے والی نسلوں کی زندگی تبدیل کر کے رکھ دے گی۔ 
 
یہ ایسا وقت ہے جب حکومت کو سنگینی سے اس سے نمٹنے اور اس کے اثرات کو کم سے کم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، اس سے پہلے ہم اس موڑ پر پہنچ جائیں جہاں سے واپسی کا راستہ نہ ہو۔ 
 
حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کلائمیٹ چینج ایکٹ 2017 میں منظور کیا گیا تھا لیکن اب تک اس کے تحت اتھارٹی کا قیام نہیں ہوا۔
 
لیکن اس سنگینی کو مدنظر رکھتے ہوئے سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو حکم دیا ہے کہ دو ہفتوں کے اندر موسمی تبدیلی کے حوالے سے اتھارٹی تشکیل دے کر موسمی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے فنڈز بھی مہیا کرے۔
 
سپریم کورٹ نے یہ حکم ایسے وقت میں دیا جب عالمی بینک بھی کہہ چکا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث پاکستان میں گرمی کی شدت اور سیلاب اس بات کا واضح عندیہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے پاکستان کو ترقیاتی پروگرام اور غربت میں کمی کرنے کی کوششوں میں مشکلات ہوں گی۔
 
2022 میں موسمیاتی تبدیلی کے باعث آفات سے 1700 افراد جان گنوا بیٹھے جبکہ 80 لاکھ افراد بے گھر ہوئے۔ اس کے علاوہ ملک کو 30 ارب ڈالر کا انفراسٹرکچر، فصلوں اور مویشیوں کے کھونے سے معاشی نقصان ہوا۔
 
ورلڈ بینک نے یہ بھی کہا ہے کہ شدید موسمیاتی تبدیلی، ماحولیاتی خرابی اور ہوا میں آلودگی سے پاکستان میں 2050 تک ملک کے جی ڈی پی میں 18 سے 20 فیصد کمی ہو سکتی ہے۔ یہ ایک بہت بڑا نمبر ہے جس سے ملک کی ترقی رک جائے گی۔
 
پاکستان میں تمام ویٹ لینڈز یعنی پانی کے ذخائر کو موسمی تبدیلی، سیلاب یا خشک سالی، پانی کی طلب میں اضافے اور بدانتظامی کے باعث کم یا بےقاعدہ پانی کی صورت حال کا سامنا ہے۔
 
 
پاکستان میں موحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ اب تک تو گلیشیئروں کا پانی جھیلوں اور دریاؤں کو سیر کر رہا تھا لیکن موسمی تبدیلی کے باعث گلیشیئر تیزی سے پگھلنا شروع ہو گئے ہیں، جس کے باعث ایک طرف سیلاب آتے ہیں اور دوسری جانب گلیشیئروں میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ 
 
مختصراً موسمیاتی تبدیلی سے پاکستان میں مجموعی طور پر پانی میں کمی واقع ہو گی۔

موسمیاتی تبدیلی کے باعث سیلاب اور خشک سالی میں اضافہ اور اس کے ساتھ گرمی میں اضافے سے خوراک کی فراہمی میں کمی اور قیمتوں میں اضافہ ہو گا اور اس وجہ سے جنوبی اور جنوب مشرق ایشیا میں غذاتی قلت میں اضافہ ہو گا۔

گرمی میں اضافے سے ایشیائی ممالک میں توانائی کی طلب بڑھے گی۔ ایشیا میں 13 ممالک ایسے ہیں جہاں توانائی کا استعمال بہت زیادہ ہے اور ان 13 ممالک میں سے 11 ایسے ممالک ہیں جہاں توانائی کا عدم تحفظ اور صنعتی نظام کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آئی پی سی سی کے مطابق گلوبل وارمنگ اتنی تیزی سے ہو رہی ہے کہ ہم 1.5 ڈگری کے درجہ حرارت میں اضافے کی حد کو 2030 تک عبور کر جائیں گے، جب کہ اس سے قبل یہ کہا جا رہا تھا کہ یہ حد ہم 2040 تک پار کریں گے۔

2019 میں ماحول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ گذشتہ 20 لاکھوں سالوں سے زیادہ تھی اور گذشتہ 50 سالوں میں درجہ حرارت میں اتنی تیزی سے اضافہ ہوا، جو گذشتہ کم از کم دو ہزار سال میں نہیں دیکھا گیا۔
 
نیچر کلائمیٹ چینج نامی جرنل میں شائع ہونے والی تحقیق میں کہا گیا تھا کہ موسمی تبدیلی نے گلیشیئر جھیل کے پھٹنے کے واقعات میں بہت حد تک اضافہ کر دیا ہے اور ان گلیشیئر جھیلوں کی وجہ سے پاکستان میں 70 لاکھ افراد کو خطرہ لاحق ہے۔ 
 
گذشتہ 30 برس میں گلیشیئر جھیل پھٹنے کے واقعات میں 50 فیصد اضافہ ہوا۔ قطب شمالی اور جنوبی کو چھوڑ کر پاکستان میں دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ گلیشیئر ہیں، جن کی تعداد سات ہزار ہے۔
 
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ترقیاتی پروگرام کے ایک اندازے کے مطابق ہندو کش ہمالیہ میں تین ہزار گلیشیئر جھیلیں بنیں، جن میں سے 33 جھیلوں سے شدید خطرہ لاحق ہے اور 70 لاکھ افراد متاثر ہو سکتے ہیں۔
 
جنوری 2020 میں رائل میٹرولوجیکل سوسائٹی کی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ انڈیا میں درکٹ گلیشیئر جھیل کی سطح میں گذشتہ دو دہائیوں میں 240 فیصد اضافہ ہوا۔
 
موسمیاتی تبدیلی کو بھی اہمیت دینی چاہیے کیونکہ اس کے اثرات اور اس سے ہونے والے نقصانات مستقبل یا مستقبل قریب کی بات نہیں بلکہ یہ ہمارا حال ہے۔
 
پاکستان کے پاس راستہ موجود ہے کہ آیا وہ اپنے وجود میں آنے کے سو سال بعد موسمیاتی تبدیلی کو مدنظر رکھتے ہوئے ماحول دوست اقدامات اٹھا کر معاشی کامیابی کی مثال بننا چاہتا ہے یا نہیں۔
 
کرۂ ارض 20 سال پہلے والا نہیں رہا اور موسمیاتی تبدیلی کے باعث اس میں تیزی سے تبدیلیاں آ رہی ہیں۔
 
آج کل کے شدید موسمیاتی واقعات کو دیکھیں تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث دنیا میں تبدیلی آ رہی ہے اور اس کا اثر مستقبل میں کیا ہو گا۔
whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات