چھ ججوں کا معاملہ صدارتی ریفرنس کے دائرہ کار سے باہر

جب اہم ترین معاملہ سپریم کورٹ کے روسٹر پر ہے تو صدارتی ریفرنس کی وقعت نہیں رہتی اور ایسے نازک موقعے پر صدر اور وزیراعظم اداروں میں تصادم کو روکنے کے لیے آئینی طور پر بے بس نظر آ رہے ہیں۔

20 اکتوبر 2022 کی تصویر میں سپریم کورٹ کی عمارت کا بیرونی منظر (انڈپینڈنٹ اردو)

وفاقی مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ چھ ججوں کے خط کا معاملہ آؤٹ آف کورٹ حل کرنے کے لیے وزیراعظم سوچ رہے ہیں کہ صدر پاکستان کو ایڈوائس کریں کہ وہ اس قومی اہمیت کے حامل معاملے پر اپنا کردار ادا کریں۔

رانا ثنا اللہ کی تجویز ناقابلِ فہم ہے کیوں کہ انہوں نے چھ ججوں کے تحفظات کے ازالے کے لیے سپریم کورٹ کی حالیہ سماعت کو مدنظر نہیں رکھا۔ جب اہم ترین معاملہ سپریم کورٹ کے روسٹر پر ہے تو صدارتی ریفرنس کی وقعت نہیں رہتی اور ایسے نازک موقعے پر صدر اور وزیراعظم اداروں میں تصادم کو روکنے کے لیے آئینی طور پر بے بس نظر آ رہے ہیں۔

تاحال دونوں شخصیات مکمل خاموش ہیں اور عدلیہ کے بارے میں بعض سیاسی اور غیر سیاسی سٹیک ہولڈرز جن خیالات کا اظہار کر رہے ہیں، اس سے حالات سنگینی کی طرف جا رہے ہیں۔

حکمران جماعت کی اعلیٰ ترین سیاسی شخصیت 30 مئی کے بعد اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کے لیے سیاسی بیانیہ تیار کر رہی ہے۔

حکمران جماعت کی بعض اہم ترین شخصیات نے اب تک جو اقدامات اٹھائے ہیں ان سے غیریقینی صورت حال پیدا ہو گئی ہے، اٹارنی جنرل پاکستان اور وفاقی وزیر قانون و انصاف کے ابھی تک مدلل دلائل سامنے نہیں آئے ہیں اور عدلیہ کے بعض ججوں کی دوہری شہریت کا معاملہ درمیان میں آ گیا ہے، جس سے عوام بھی سوچ میں پڑ گئے ہیں کہ دونوں شہریت کے حامل ججوں ابھی تک اس حساس ترین منصب پر کیسے براجمان ہیں۔

آئین و قانون اور سپریم کورٹ کے ماضی اور حال کے فیصلوں میں ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی جس کے تحت صدر مملکت اعلیٰ عدالت میں کیس کی سماعت سے بالا بالا کوئی راہ نکالنے کے لیے سپریم کورٹ میں ریفرنس بھجوائے، اس سے معاملہ مزید سنگین اور آئینی بحران پیدا ہو جائے گا۔ چیف جسٹس آف پاکستان بھی پسند نہیں کریں گے کہ ان کے عدالتی معاملات میں ایوانِ صدر سے ریفرنس آئے۔

صدارتی ریفرنس کی آڑ میں ایمرجنسی لگانے کا بھی عندیہ دیا جا رہا ہے اور صدر مملکت کو مشورہ دیا جا رہا ہے کہ محدود پیمانے پر ایمرجنسی تین نومبر 2000 کی طرز پر لگائی جائے۔

چھ ججوں کا معاملہ اب بہت آگے نکل چکا ہے اور ان کے بارے میں سرکاری نمائندگان نے جو مؤقف اختیار کیا ہے, معاملہ ستمبر اکتوبر 1997 کی طرح ہو گیا ہے جب چیف جسٹس آف پاکستان سجاد حسین اور وزیراعظم نواز شریف اور صدر فاروق لغاری کے مابین بحرانی کیفیت پیدا ہو گئی تھی۔ اس وقت آرمی چیف جنرل کرامت کی خاموشی سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور صدر پاکستان مستعفی ہو گئے تھے، اب معاملہ اس کے برعکس ہے۔

اندرونی طور پر کیفیت یہ ہے کہ نواز شریف اگرچہ پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر نامزد ہو چکے ہیں اور سیاسی کمان ان کے ہاتھ میں آ گئی ہے لیکن ان کے ناراض چہرے سے اخذ کیا جا سکتا ہے کہ وہ  17 اپریل 1993 اور اگست 2017 کی طرف جا رہے ہیں۔

عدالتوں کے نظام کار سے ابھی تک اہم ترین مقدمات کا فیصلہ بھی نہیں آیا ہے، آئی ایم ایف نے پاکستان میں مہنگائی کا سیلاب کھڑا کر رکھا ہے اور ملک کے معاشی ماہرین، تاجر کمیونٹی، موجودہ وزیر خزانہ سے مطمئن نہیں ہیں۔

صدارتی ریفرنس کی آڑ میں ایمرجنسی لگانے کا بھی عندیہ دیا جا رہا ہے اور صدر مملکت کو مشورہ دیا جا رہا ہے کہ محدود پیمانے پر ایمرجنسی تین نومبر 2000 کی طرز پر لگائی جائے اور آئین کے آرٹیکل میں ترمیم کرنے کے لیے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلاتے ہوئے اختیارات صدر مملکت کو تفویض کر کے بین السطور میں صدارتی راج نافذ کر دیا جائے۔

اس سے ملک میں شدید ردعمل اس لیے بھی آنے کا امکان ہے کہ بڑی اپوزیشن جماعتوں نے آٹھ فروری کے انتخابات کے نتائج کو ابھی تک تسلیم ہی نہیں کیا ہے اور فارم 45 اور 47 کے اردگرد اپنی سیاسی مہم چلا رکھی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حاصلِ کلام یہ ہے کہ عدلیہ اور عسکری قوتوں کے درمیان حالیہ کشیدگی میں صدر آصف علی زرداری مصالحتی کردار ادا کرنے کی کوشش کریں گے اور یہ معاملہ عدلیہ سے باہر حل ہونے کی کوشش کی جائے گی کیونکہ جوں جوں سپریم کورٹ کے چھ رکنی بینچ کی سماعت آگے بڑھے گی، کردار کشی کا ماحول زور پکڑتا جائے گا اور شنید ہے کہ بینچ  کے اہم ترین جج ہی بینچ سے لاتعلقی کا اظہار کریں گے تو بینچ ہی ٹوٹ جائے گا۔

اس کا فوری حل یہی ہے کہ سپریم کورٹ کا چھ رکنی بینچ اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کرتے ہوئے گرمائی تعطیلات کے بعد ستمبر تک موخر کر دیا جائے۔

نواز شریف بین الاقوامی حکمت عملی کے تحت پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر بننے پر متفق ہوئے ہیں، انہوں نے پالیسی بیان دیتے ہوئے بین السطور میں اپنے ماضی کا جس انداز میں ذکر کیا ہے، اس سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ جولائی 1993 میں اپنی وزارت عظمیٰ کی محرومی کے محرکات فراموش نہیں کر پائے ہیں۔

18 اپریل 1993 کو صدر غلام اسحاق خان نے اعلیٰ عسکری قیادت کے تحفظات کو مدنظر رکھتے ہوئے نواز شریف کی حکومت اور قومی اسمبلی سمیت چاروں صوبائی حکومتوں اور اسمبلیوں کو تحلیل کر دیا تھا، اس کی پراسراریت کے تانے بانے ایٹمی پروگرام کو منجمد کرنے سے ملتے جلتے ہیں۔

مجھے اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) نعیم الدین نے بتایا تھا، لیکن سپریم کورٹ کے اس وقت کے بینچ نے، جس کی سربراہی ڈاکٹر نسیم حسن شاہ کر رہے تھے، 26 مئی 1993 کو صدر غلام اسحاق خان کے احکامات کو کالعدم قرار دے کر اسمبلیاں بحال کر دی تھیں جس پر سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے ذومعنی ریمارکس دیے تھے جو تاریخ کا حصہ ہیں۔

بعد ازاں پنجاب اور وفاق کے درمیان شدید تناؤ پیدا ہو گیا تھا اور جنرل وحید کاکڑ کے فارمولے کے تحت اسمبلیاں تحلیل کر کے 15 اکتوبر 1993 کو ازسرِ نو انتخابات کا شیڈول جاری کر دیا گیا تھا اور عالمی بینک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر معین الدین قریشی کو نگران وزیراعظم مقرر کرنا پڑا تھا، جن کی پشت پر جنرل وحید کاکڑ کھڑے تھے۔

نواز شریف نے 12 اکتوبر 1999 کے سانحے کے ساتھ ساتھ اپنی نااہلی 27 جولائی 2017 اور فروری 2018 میں مسلم لیگ ن کی صدارت سے نااہلیت کا ذکر کرتے ہوئے عسکری قیادت سے سوال پوچھے کہ ان کو حکومت سے بار بار برطرف کرنے کی وجوہ کیا تھیں؟

نواز شریف نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار، آصف سعید کھوسہ اور دیگر سابق چیف جسٹسوں کے کردار کا بھی ذکر کرتے ہوئے جسٹس (ر) ثاقب نثار کی ویڈیو اور آڈیو کا ذکر کیا ہے۔

غالباً ان کا اشارہ گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس رانا شمیم کی طرف ہے، بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اطہر من اللہ نے طویل بحث مباحثے کے بعد مقدمہ خارج کر دیا تھا، لیکن اس وقت بعض خبریں گردش کر رہی تھیں کہ رانا شمیم نے متنازع آڈیو لندن میں نواز شریف کو پہنچا دی تھی۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر