برطانیہ میں آلودہ خون استعمال کیے جانے سے متعلق ایک سکینڈل کی حتمی تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سکول کے بچوں کو ’تحقیق کے عمل میں بطور اشیا‘ استعمال کیا گیا اور ان کے ہیپٹاٹائٹس اور ایڈز میں مبتلا ہونے کا خطرہ نظرانداز کیا گیا۔
1970 اور 1980 کی دہائی میں لارڈ میئر ٹریلور کالج میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ میں سے ’بہت کم انفکیشن کا شکار ہونے سے محفوظ‘ رہے اور جریان خون کے مرض میں مبتلا 122 طلبہ جو 1970 اور 1987 کے درمیان اس سکول میں زیر تعلیم تھے، ان میں صرف 30 اب تک زندہ ہیں۔
ہیمپشائر کے بورڈنگ سکول کے طلبہ کا علاج این ایچ ایس سینٹر میں کیا گیا، تاہم بہت سے طلبہ کا علاج پلازما خون کی ان مصنوعات کی مدد سے کیا گیا، جو ہیپاٹائٹس اور ایچ آئی وی سے آلودہ تھیں۔
انکوائری کے چیئرمین سر برائن لینگ سٹاف نے پیر کو جاری ہونے والی اپنی دو ہزار 527 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ٹریلور میں بچوں کا علاج خون پلازما کی ایسی تجارتی مصنوعات کی مدد سے کیا گیا، جو انفیکشن کے زیادہ خطرات کے حوالے سے جانی جاتی تھیں۔
دوسری جانب عملے نے بچوں کے بہترین مفادات کی بجائے ’تحقیق کے فروغ‘ کو ترجیح دی۔
سر برائن نے کہا: ’طلبہ کو تحقیق کے لیے اکثر اشیا سمجھا گیا، بجائے اس کے کہ اولین اور سب سے اہم بچوں کو سمجھا جائے، جن کا علاج صرف ان کے ذاتی بہترین مفادات پر مرکوز ہونا چاہیے تھا۔ یہ غیر اخلاقی اور غلط تھا۔‘
ان کی رپورٹ کے مطابق اس میں ’کوئی شک نہیں‘ ہے کہ ٹریلور کا طبی عملہ خون اور خون کی مصنوعات کے ذریعے وائرس کی منتقلی کے خطرات سے آگاہ تھا۔
انہوں نے لکھا: ’نہ صرف یہ تحقیق کی ایک شرط تھی بلکہ وہاں کے محققین نے جو کچھ لکھا، اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ خطرات سے آگاہ تھے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ٹریلور میں جاری عمل سے پتہ چلتا ہے کہ طبی عملہ اس بات سے بخوبی آگاہ تھا کہ خون کی تجارتی مصنوعات کے زیادہ استعمال سے ایڈز میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہے۔‘
رپورٹ میں نتیجہ نکالا گیا ہے کہ خطرات کے علم کے باوجود ڈاکٹرز اپنی تحقیق کو آگے بڑھانے کی کوششوں میں ایسا علاج کرتے رہے، جس میں خطرہ زیادہ تھا۔
برائن نے لکھا کہ ’اس نتیجے سے بچنا مشکل ہے کہ تحقیق میں پیشرفت کو مریض کے فوری بہترین مفاد پر زیادہ ترجیح دی گئی۔‘
58 سالہ رچرڈ واروک جب ٹریلور کالج میں پڑھتے تھے تو اس وقت وہ ایچ آئی وی اور ہیپاٹائٹس سی میں مبتلا ہو گئے۔ انہوں نے اخبار دا گارڈین کو بتایا کہ طلبہ کو ’قربان کرنے کے قابل‘ سمجھا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا: ’ہمیں مختلف قسم کی فیکٹر ایٹ نامی پروٹین (آلودہ خون سے حاصل کی گئی) کے انجیکشن دیے گئے۔ یہ سب ہمارے لیے سرنجوں میں تیار کیا گیا۔ وہ مختلف ادویات ساز کمپنیوں کے مختلف ٹیکے استعمال کر رہے تھے تاکہ دیکھا جا سکے کہ کون سا انجیکشن بہترین کام کرتا ہے۔ ہم آٹھ یا نو سال کے بچے تھے۔
بقول رچرڈ: ’مجھے تجربے کے لیے استعمال ہونے والے شے کی اصطلاح سے نفرت ہے لیکن ہم یہی کچھ تھے۔ ہماری اوقات بندروں سے بھی کم تھی، جیسا کہ اس وقت ایک خط میں کہا گیا۔‘
ہیموفیلیا (جریان خون) ایک موروثی بیماری ہے جس میں خون مناسب طور پر نہیں جمتا۔ اس مرض میں مبتلا زیادہ تر افراد میں ایک پروٹین کی کمی ہوتی ہے جو انسانی خون کو جمنے کے قابل بناتا ہے، جسے فیکٹر ایٹ کہتے ہیں۔
1970 کی دہائی میں ایک نیا علاج دریافت کیا گیا تھا، جس میں خون کو جمنے میں مدد دینے والی ایک پروٹین نے اس پروٹین کی کمی پوری کرنی تھی، جو خون میں موجود نہیں تھی۔ یہ پروٹین عطیہ کردہ انسانی خون کے پلازما سے تیار کی گئی تھی۔
لارڈ میئر ٹریلور کالج، جسے تب سے ٹریلور کالج کے نئے نام سے پکارا جاتا ہے، 1908 میں ایک سکول کے طور پر قائم کیا گیا، جس نے معذور بچوں کو کسی بھی ضروری طبی علاج کے ساتھ ساتھ تعلیم حاصل کرنے کا بہتر موقع فراہم کیا۔
بنیادی طور پر یہ لڑکوں کا سکول تھا لیکن اس کے بعد اسے 1978 میں لڑکیوں کے سکول میں ضم کر کے مخلوط تعلیم شروع کی گئی۔
1956 سے وہ لڑکے جو ہیموفیلیا کے مرض میں مبتلا تھے، نے سکول جانا شروع کیا۔ یہ سامنے آنے کے بعد کہ طلبہ کو آلودہ خون کا پلازما دیا گیا ہے، سکول میں موجود این ایچ ایس کا کلینک بند کر دیا گیا۔
ٹریلور سکول اینڈ کالج نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’انکوائری رپورٹ اس خوفناک قومی سکینڈل کے پورے پیمانے کو ظاہر کرتی ہے۔ ہمیں افسوس ہے کہ ہمارے کچھ سابق شاگرد اس قدر افسوسناک طور پر متاثر ہوئے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ نتائج انہیں اور ان کے اہل خانہ کو کچھ سکون فراہم کریں گے۔
مزید کہا گیا کہ ’سکینڈل کے بارے میں اس رپورٹ نے پورے نظام کی ناکامی کو بے نقاب کر دیا ہے۔‘
اس رپورٹ کی تیاری میں خبر رساں ادارے پی اے (پریس ایسوسی ایشن) سے مدد لی گئی ہے۔
© The Independent