تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ خون کا ایک نیا سستا اور سادہ ٹیسٹ ان لوگوں کی شناخت کرنے میں مدد کرسکتا ہے جنہیں ہارٹ فیلیئر سے مرنے کا سب سے زیادہ خطرہ ہے۔
تین سالہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ جن مریضوں میں ایک خاص پروٹین کی مقدار سب سے زیادہ تھی ان میں دل کی پیچیدگی کی وجہ سے مرنے کا امکان کم مقدار والے افراد کے مقابلے میں 50 فیصد زیادہ تھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ نیوروپیپٹائڈ وائی (این پی وائی) نامی اس پروٹین کی جانچ سے یہ اندازہ لگانے میں مدد مل سکتی ہے کہ کس طرح ہارٹ فیل کا امکان بڑھ سکتا ہے۔
محققین کو امید ہے کہ خون کے ایک ٹیسٹ کو پانچ سال کے اندر ہارٹ فیل کے مریضوں کے علاج میں مدد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی میں کارڈیو ویسکولر میڈیسن کے پروفیسر اور کنسلٹنٹ کارڈیولوجسٹ نیل ہیرنگ نے کہا: ’اس تحقیق کے نتائج ایک دلچسپ نئی پیش رفت ہیں، جو سٹریس ہارمون پر 10 سال سے زیادہ کی مشترکہ تحقیق پر مبنی ہیں۔
ہمیں امید ہے کہ ہماری تحقیق بالآخر مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو فائدہ پہنچائے گی جو روزانہ ہارٹ فیلیئر کے شدید اثرات سے دوچار ہیں۔
’اس کے بعد ہم اس بات کی تحقیقات کریں گے کہ کیا نیوروپیپٹائڈ وائی کی بہت زیادہ مقدار اس بات پر اثر انداز ہو سکتی ہے کہ آیا مریض پانچ سال کے اندر خون کے ٹیسٹ شروع کرنے سے پہلے آئی سی ڈیز جیسے زندگی بچانے والا علاج حاصل کر سکتے ہیں۔‘
ہارٹ فیل اس وقت ہوتا ہے جب دل جسم میں ویسے خون پمپ نہیں کرسکتا جیسے اسے کرنا چاہیے۔
اس سے بار بار ہسپتال جانا پڑتا ہے اور معیار زندگی گر جاتا ہے، اور فی الحال کوئی علاج نہیں ہے۔
ایک اندازے کے مطابق اس وقت برطانیہ میں دس لاکھ سے زائد افراد ممکنہ ہارٹ فیلیئر کا شکار ہیں اور برطانیہ میں ہر سال تقریبا دو لاکھ نئے افراد میں تشخیص ہوتی ہے۔
دل کی اعصاب انتہائی تناؤ کے ردعمل میں این پی وائی جاری کرتے ہیں۔
اس سے دل کی دھڑکن ممکنہ طور خطرناک حد تک بے ترتیب ہو جاتی ہے اور دل کے اعصاب میں سب سے چھوٹی خون کی شریانوں کو بند کرنے کا سبب بن سکتا ہے، جس سے دل مزید زیادہ کام کرتا ہے اور دل کی طرف جانے والی خون کی شریانوں کے سکڑنے کا سبب بنتا ہے۔
اس تحقیق میں ہارٹ فیلیئر کے مختلف مراحل میں 800 سے زائد افراد کے ڈیٹا کا استعمال کیا گیا اور لوگوں میں ہارمون بی ٹائپ نیٹریوریٹک پیپٹائڈ (بی این پی) کی سطح کی پیمائش کی گئی، جو اس وقت ہارٹ فیلیئر کی تشخیص کے لیے استعمال ہونے والا ہارمون ہے۔
شرکا کا بلڈ پریشر اور ایکوکارڈیوگرام، ایک قسم کا الٹرا ساؤنڈ ہارٹ سکین بھی لیا گیا اور باقاعدگی سے اس پر نظر رکھی گئی۔
تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ جن افراد میں این پی وائی کی مقدار زیادہ تھی، جو گروپ کا ایک تہائی حصہ تھے، ان میں دل کی پیچیدگی کی وجہ سے تین سال کے دوران مرنے کا خطرہ کم سطح والے افراد کے مقابلے میں 50 فیصد زیادہ تھا۔
محققین کا کہنا ہے کہ بی این پی کے ساتھ این پی وائی کی پیمائش سے ہارٹ فیلیئر کے مریضوں کی تشخیص میں مدد مل سکتی ہے، جس سے ان لوگوں کی نشاندہی ہوتی ہے جن کے مرنے کا خطرہ زیادہ ہوسکتا ہے۔
سب سے زیادہ خطرے کا شکار افراد کی شروع میں ہی نشاندہی کرنے سے ڈاکٹروں کو اپنے مریضوں کے علاج کے لیے بہترین طریقہ کار کا فیصلہ کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے، جس سے ان لوگوں کی نشاندہی کرنے میں مدد مل سکتی ہے جو ممکنہ طور پر زندگی بچانے والے امپلانٹ لگانے سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
ٹیم کو امید ہے کہ این پی وائی کے لیے خون کا ٹیسٹ پانچ سال کے اندر کلینکس میں استعمال ہو سکے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
برٹش ہارٹ فاؤنڈیشن (بی ایچ ایف) کے چیف سائنٹفک اینڈ میڈیکل آفیسر پروفیسر برائن ولیمز کا کہنا ہے کہ ’اس نئی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ایک نئے، سستے اور سادہ خون کے سے ٹیسٹ مستقبل میں ہمیں زیادہ درست طریقے سے یہ معلوم کرنے میں مدد مل سکتی ہے کہ ہارٹ فیلیئر کے کن مریضوں میں جلد موت کا خطرہ سب سے زیادہ ہے۔
’اس طرح کی زندگی بچانے والی تحقیق کے لیے فنڈز کے ذریعے ہی آگے بڑھ سکتے ہیں اور اس بات کو یقینی بنا سکتے ہیں کہ ہارٹ فیلیئر میں مبتلا افراد کو بہترین اور موزوں ترین علاج مل سکے تاکہ وہ اچھی زندگی گزار سکیں۔‘
برٹش ہارٹ فاؤنڈیشن کی مالی اعانت سے یورپین جرنل آف ہارٹ فیلیئر میں شائع ہونے والی یہ تحقیق گلاسگو یونیورسٹی کے پروفیسر پردیپ جھنڈ کے تعاون سے کی گئی۔
اس کے بعد، محققین کو امید ہے کہ این پی وائی کی بہت زیادہ مقدار والے مریضوں کے اعداد و شمار کا استعمال کرتے ہوئے یہ دیکھنے کے لیے بڑے پیمانے پر تجربات کیے جائیں گے کہ آیا یہ ان لوگوں کی درست شناخت کرسکتا ہے جو ممکنہ طور پر زندگی بچانے والے امپلانٹ سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔