بنگلہ دیش اور پاکستان کا سیاسی بحران: ایک تقابل

جمہوریت میں کسی گروہ کو مقبولیت حاصل ہو جائے مگر وہ کسی دوسرے کے وجود کا قائل نہ ہو تو یہ رویہ پاپولر جمہوری فاشزم کہلاتا ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں معاشرے اسی بحران سے اور اسی چیلنج سے دوچار ہیں۔

بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ آٹھ جنوری 2024 کو ڈھاکہ میں 12 ویں پارلیمانی انتخابات جیتنے کے ایک دن بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے (اے ایف پی/ اندرنیل مکھرجی)
 

بنگلہ دیش میں انتخابات ہو چکے ہیں اور پاکستان میں ہونے ہی والے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے سیاسی منظر نامے میں کہاں کہاں اور کتنی مماثلت ہے؟

پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں سیاسی عدم استحکام کی طرف بڑھ رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ دونوں ممالک میں حزب اختلاف کے لیے سازگار ماحول نہیں ہے۔ اپوزیشن دونوں جگہ بےبسی کے عالم میں ہے، بادی النظر میں دونوں میں بہت سی مماثلت ہے لیکن اس مماثلت کی مبادیات وہ نہیں جو نظر آ رہی ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ بنگلہ دیش کی اصل خرابی وہاں کے انتخابی عمل میں نہیں ہے۔ یہ خرابی وہاں حسینہ واجد کے یک جماعتی اقتدار کے تصور میں ہے۔ یہ جمہوری رویہ نہیں ہے۔ یہ جمہوری فاشزم ہے۔ وہ کسی سیاسی حریف کے وجود کو برداشت کرنے کی قائل نہیں۔ ان کے خیال میں خیر کا منبع ان کی ذات اور ان کی جماعت ہے اور حریفوں کو ہر سطح پر کچل دینا ہی ملک کی حقیقی خدمت ہے۔

پاکستان کی اصل خرابی بھی انتخابی عمل کے نشیب و فراز میں نہیں، یہ عمران خان کے یک جماعتی اقتدار کے تصور میں ہے۔ وہ بھی کسی سیاسی حریف کے وجود کو کسی بھی سطح پر برداشت کرنے کے روادار نہیں تھے۔ ان کے ہاں بھی خیر اور شر کو جانچنے کا معیار ان کی ذات ہے۔ جو ان کے ساتھ ہیں وہ خیر کے ساتھ ہیں، جو ان کے ساتھ نہیں ہیں وہ بدی کی قوت ہیں۔

کبھی خیال آتا ہے کہ یہ فاشزم شاید اس خطے کے مزاج میں ہے۔ کیونکہ مودی کا اقتدار بھی اسی رویے کا عکاس ہے۔ 

پھر یہ کہ خود پاکستان میں صرف عمران خان کا دامن اس آزار سے آلودہ نہیں، بلکہ نواز شریف، آصف زرداری اور دیگر قائدین بھی درجہ بدرجہ اسی جمہوری فاشزم ہی کو جمہوریت سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے ملک میں سیاسی جماعتیں ایک ادارہ نہیں بن سکیں اور پی ڈی ایم بھی عملاً پاکستان ڈیموکریٹک مونارکس کا منظر پیش کرتی  ہے۔ 

بر صغیر کے اس آزار کا سماجی مطالعہ ہونا چاہیے۔

جمہوریت میں کسی گروہ کو مقبولیت حاصل ہو جائے مگر وہ کسی دوسرے کے وجود کا قائل نہ ہو تو یہ رویہ پاپولر جمہوری فاشزم کہلاتا ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں معاشرے اسی بحران سے اور اسی چیلنج سے دوچار ہیں۔

 فرق صرف اتنا ہے کہ ایک ملک میں یہ طرز عمل حصول اقتدار کے جتن کر رہا ہے اور دوسرے ملک میں یہ رویہ بقائے اقتدار کی کوششوں میں مصروف ہے۔ افتاد طبع اور ترجیحات یکساں ہیں۔

حسینہ واجد اقتدار کی چوتھی مدت کی شروعات کر رہی ہیں اور ان کے حریفوں پرعرصہ حیات تنگ ہو چکا ہے۔ عمران خان کے اقتدار کا پہلا دور دیکھ کر تصور کیا جا سکتا ہے کہ وہ بھی اوپر تلے دو تین ادوار اقتدار میں گزارتے تو مخالفین پر کیا بیتتی اور سماج کو کیسے امتحان سے گزرنا پڑتا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اقتدار سے الگ ہونا حسینہ واجد کے لیے کوئی آپشن نہیں ہے، طویل دورانیے کا یک جماعتی اقتدار ہی ان کا مقصود ہے جس میں اختیارات کا گھنٹہ گھر ان کی ذات ہو اور وہ اس کے لیے کسی بھی حد سے گزر جانے کو تیار ہیں۔

عمران خان کے ہاں بھی سیاست کا اایسا کوئی تصور نہیں پایا جاتا جس میں اقتدار کے منصب پر ان کے علاوہ کوئی اور ہو۔ چنانچہ جب وہ اقتدار میں آئے تو ان کے مداح عجیب سے بےنیازی اوڑھ کر اعلان کیا کرتے تھے کہ آئین اور قانون اپنے پاس رکھیے، خان پانچ سالوں کے لے نہیں، دس پندرہ سال کے لیے آیا ہے اور پھر اقتدار سے الگ ہوئے تو ان کا رد عمل سب کے سامنے ہے۔

بنگلہ دیش کے جمہوری بحران کی جوہری طور وجہ یہ ہے کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے اقتدار حسینہ واجد کے پاس رہے اور پاکستان کے حالیہ بحران کی جوہری وجہ یہ ہے کہ عمران خان کو اقتدار سے کیوں نکالا گیا۔ عدم اعتماد ہوا تو یہ امریکی سازش قرار پایا اور اقتدار نہ رہا تو جس صاحب منصب کو قوم کا باپ قرار دیا جاتا تھا، اسی باپ کو حریف قرار دے دیا۔

کسی دن حسینہ واجد اقتدار سے الگ ہوئیں تو ان کے رد عمل میں ایسی ہی تندی کا پایا جانا باعث حیرت نہیں ہو گا۔

 دونوں کرداروں کا عمومی رویہ بھی ایک جیسا ہے۔ ایک کے لیے چیلنج اس کے سیاسی حریف ہیں اور اس نے ان کا ناطقہ بند کر دیا ہے دووسرے کا غم و غصہ یہ ہے کہ اس کے یک جماعتی شخصی اقتدار کے دوام میں ادارے اس کے سہولت کار کیوں نہیں بنے۔

فاشزم اور جمہوریت کا فرق ہر دو جگہوں پر نمایاں ہے۔چنانچہ بنگلہ دیش کی اپوزیشن نے بنگلہ دیش کی ریاست کو سینگوں پر نہیں لیا۔ اس نے یہ نہیں کہا کہ ہمارا رہنما ہماری ریڈ لائن ہے، کسی نے یہ نہیں کہا اسے اقتدار نہیں ملتا تو بنگلہ دیش کے باقی رہنے کا فائدہ ہی کوئی نہیں، کسی نے اوورسیز بنگالیوں سے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ بنگلہ دیش پیسے بھیجنے بند کر دو۔ کسی نے یہ اعلان نہیں کیا کہ ہم اقتدار میں نہیں تو ہماری بلا سے، بھلے بنگلہ دیش پر ایٹم بم مار دو۔

دونوں ملکوں کے انتخابی عمل سے جڑی مماثلت اصل میں مماثلت معکوس ہے۔ بنگلہ دیش میں اپوزیشن کی لاشیں ہتھ کڑیوں اور بیڑیوں میں برآمد ہوتی ہیں، پاکستن میں اپوزیشن دیسی مرغی کھا رہی ہے اور ٹریڈ مل پر دوڑ رہی ہے۔ بنگلہ دیش کی اپوزیشن کا ہدف ریاست نہیں ہے، پاکستان کی اپوزیشن سے کسی کو امان نہیں۔

البتہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ بنگلہ دیش کی اپوزیشن دودھ کی دھلی ہے یا پاکستان کی پی ڈی ایم دودھ کی دھلی ہے۔ سیاست کی قباحتیں دونوں طرف موجود ہیں۔ تاہم بحران کی حقیقی وجہ یہ قباحتیں نہی ہیں۔ بحران کی اصل وجہ یک جماعتی جمہوری فاشزم ہے جو کسی بھی حال میں ہو، اسے کسی دوسرے کا وجود برداشت نہیں۔

یہی اصل مماثلت ہے۔ دونوں ممالک کے لیے جمہوریت یا انتخابی عمل چیلنج نہیں، اصل چیلنج یک جماعتی جمہوری فاشزم ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر