پاکستانی کشمیر میں سرکاری گاڑیوں کو کیوں روکا جا رہا ہے؟

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے مختلف علاقوں میں سرکاری افسران کو اس وقت عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑا جب وہ الاٹ شدہ سرکاری گاڑیوں میں دفتری اوقات کے بعد سفر کر رہے تھے۔ پالیسی اس حوالے سے کیا کہتی ہے؟

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں بجلی، آٹے اور اشرافیہ کی مراعات کے خاتمے جیسے مطالبات کو لے کر ہونے والے عوامی احتجاج کے بعد کشمیر میں مختلف علاقوں میں سرکاری اہلکاروں کو اس وقت عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑا جب وہ الاٹ شدہ سرکاری گاڑیوں میں دفتری اوقات کے بعد سفر کر رہے تھے۔

کشمیر کے علاقے نکیال میں ایک اعلیٰ سرکاری افسر کی گاڑی کو روک لیا گیا، جس میں ان کے بچے سوار تھے، جن کے ساتھ ان کا پالتو کتا بھی موجود تھا۔

سوشل میڈیا پر وائرل اس ویڈیو میں گاڑی روکنے والے افراد واضح طور پر یہ کہتے ہوئے سنے جاسکتے ہیں کہ ’سرکاری گاڑی میں کتا کیوں بٹھایا‘ جبکہ سرکاری افسر بار بار معافی مانگتے ہوئے انہیں گاڑی کا راستہ چھوڑنے کا کہہ رہے ہیں۔

اسی طرح کے واقعات مظفرآباد اور دیگر شہروں میں بھی پیش آرہے ہیں، جہاں شہری سرکاری گاڑیوں کے نجی استعمال کی تصاویر بنا کر سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ کر رہے ہیں۔

ماضی قریب میں اسی معاملے پر جون 2023 میں کشمیر ہائی کورٹ ایک فیصلہ بھی دے چکی ہے جس میں وزرا کو 1600 سی سی اور سیکرٹری کو 1300 سی سی کاریں استعمال کرنے کا پابند بنایا گیا تھا۔ اس کے علاوہ اس میں تمام سرکاری گاڑیوں کا ایک رنگ اور سرکاری ڈرائیور کے علاوہ کسی اور شخص کے گاڑی چلانے پر پابندی جیسے دیگر احکامات بھی شامل تھے۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی ٹرانسپورٹ پالیسی کیا ہے؟ اس کے مطابق کون سے افسران کو کس گاڑی کا استحقاق ہے؟ کیا کوئی بھی سرکاری اہلکار سرکاری گاڑی کو دفتری اوقات کے بعد استعمال کر سکتا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو اس وقت کشمیر کے ہر شہری کے دماغ میں ہیں۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی ترمیمی ٹرانسپورٹ پالیسی 2022 کے مطابق عدلیہ کے ججوں کو 1800 سی سی کار یا تین ہزار سی سی فور وہیل ڈرائیو جیپ کا استحقاق حاصل ہے۔ وزرائے اعظم، وزرا، مشیروں اور معاونین خصوصی کو 3000 سی سی فور وہیل ڈرائیو جیپ اور 1800 سی سی کار یعنی بیک وقت دو گاڑیوں کا استحقاق ہوگا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسی طرح چیف سیکریٹری سمیت گریڈ 21 کے تمام سیکریٹریز، انسپکٹر جنرل پولیس و جملہ چیئرمینز اور گریڈ 21 کے افسران کو 3000 سی سی فور وہیل ڈرائیو جیپ یا 1800 سی سی کار کا حق حاصل ہوگا۔

گریڈ 20 کے افسران، پارلیمانی سیکریٹریز، ایڈووکیٹ جنرل و دیگر حکومتی صوابدیدی عہدیداران کو 1600 سی سی کار یا اس کے مساوی ایک لاکھ 20 ہزار ٹرانسپورٹ الاؤنس حاصل ہوگا۔

اسی طرح کمشنر، اسسٹنٹ انسپکٹر جنرل، فیلڈ افسران اور چیف انجینیئرز کو 3000 سی سی فور وہیل ڈرائیو جیپ، نان فیلڈ افسران و ڈسٹرکٹ و سیشن کورٹ ججوں کو 1600 سی سی کار دی جائے گی۔

گریڈ 18 کے فیلڈ افسران کو 2800 سی سی جیپ، نان فیلڈ افسران کو 1300 سی سی یا 1000 سی سی کار دستیاب ہوگی۔ اسی طرح ڈپٹی کمشنرز کو 3000 سی سی جیپ جبکہ دیگر ضلعی افسران کو 2400 سی سی جیپ ملے گی جبکہ گریڈ 17 کے فیلڈ انتظامی افسران کو 2400 سی سی جیپ دی جائے گی۔

سرکاری ٹرانسپورٹ پالیسی نوٹیفکیشن کی شق 9 کے مطابق سرکاری افسر اپنے سکیل کے مطابق الاٹ شدہ گاڑی، جس کا کنوینئس الاؤنس اس کی تنخواہ سے کاٹا جا رہا ہے، شہر کی بلدیہ حدود کے اندر دفتری اوقات کے علاوہ اپنے نجی استعمال میں رکھ سکتا ہے۔

اس استعمال کے دوران مقرر کردہ فیول سے اوپر استعمال کیا جانے والا پیٹرول یا ڈیزل بھی وہ اپنی جیب سے ادا کرنے کا پابند ہوگا۔ اگر کسی بھی سرکاری افسر کو سرکاری گاڑی بلدیہ حدود سے باہر سرکاری یا نجی کام کے سلسلے میں ضرورت ہو تو وہ محکمانہ سیکرٹری کی تحریری اجازت کے ساتھ گاڑی کو سرکاری یا نجی استعمال کے لیے بلدیہ حدود سے باہر لے کر جاسکتا ہے۔

اس سرکاری پالیسی کے مطابق کسی بھی ایسے افسر کو جسے سرکاری طور پر گاڑی الاٹ ہو، گاڑی کو نجی طور پر استعمال کا حق حاصل ہے۔

 

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں سرکاری دستیاب ریکارڈ کے مطابق اس وقت سرکار کے پاس 3480 سرکاری گاڑیاں موجود ہیں، جن میں محکمہ سروسز کے پاس 38، سابقہ صدور، وزرائے اعظم کے پاس 8، وزرا، مشیران، معاون خصوصی کے پاس 49، اپوزیشن کے پاس 5، کشمیر اسمبلی کے پاس 3، ہوم ڈپارٹمنٹ کے پاس 7، آرمڈ سروسز کے پاس 5، صدر سیکرٹریٹ کے پاس 8، وزیراعظم سیکرٹریٹ کے پاس 70، محمکہ صحت کے پاس 472، محکمہ خزانہ کے پاس 21، محتسب کے پاس 7، محکمہ قانون کے پاس 111، اوقاف کے پاس 22، انڈسٹری کے پاس 65، ایلمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کے پاس 69، جنگلات کے پاس 132، پولیس کے پاس 753، فوڈ ڈپارٹمنٹ کے پاس 23، پی ڈبلیو ڈی ساؤتھ کے پاس 68،  محکمہ اطلاعات  کے پاس 28، ورکس کے پاس 49، لبریشن سیل کے پاس 17، محکمہ زکوٰۃ کے پاس 28، محکمہ سیاحت کے پاس 32، وائلڈ لائف کے پاس 22، پاور ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن کے پاس 157، سروس کمیشن کے پاس 5، سوشل ویلفیئر کے پاس 21، ترقی نسواں کے پاس 20، لوکل فنڈز آڈٹ کے پاس 2، سٹیٹ ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی کے پاس 47، ہائر ایجوکیشن کے پاس 29، زراعت کے پاس 123، لوکل گورنمنٹ کے پاس 220، بورڈ آف ریونیو کے پاس 176، الیکشن کمیشن کے پاس 12، پلاننگ کے پاس 36، کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف مینیجمنٹ سینٹر کے پاس 9، ٹرانسپورٹ اتھارٹی کے پاس 3، پروٹوکول ڈیوٹی کے پاس 3، ٹرانسپورٹ پول کے پاس 15 اور نیلامی کے لیے موجود 15 گاڑیوں سمیت دیگر 485 اضافی گاڑیاں موجود ہیں۔سرکاری گاڑیوں کے استعمال اور ان کا بجٹ کم کرنے کے معاملات پر انڈپینڈنٹ اردو نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر خزانہ و ترجمان حکومت ماجد خان سے بات کی، جن کا کہنا تھا کہ حکومت نے گذشتہ ایک سال میں ایک بھی گاڑی نہیں خریدی۔

ماجد خان کا کہنا تھا کہ ’حکومت تمام تر کفایت شعاری کے اصول اپنا رہی ہے، جس سے حکومت کو فائدہ ہوسکے۔‘

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’ٹرانسپورٹ پالیسی پر من و عن عملدرآمد کروایا جا رہا ہے۔ شہریوں کی جانب سے سرکاری گاڑیاں روکنے کے واقعات پر وزیر خزانہ نے موقف دیا کہ معاشرے کو اخلاقی تربیت کی اشد ضرورت ہے۔ کسی بھی سرکاری افسر کو قانون اور پالیسی اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ وہ الاٹ شدہ گاڑی بلدیہ حدود کے اندر استعمال کر سکتا ہے، جس کا وہ اپنی تنخواہ سے ٹرانسپورٹ الاؤنس کٹواتا ہے۔ حد کے اندر الاٹ شدہ گاڑی کا اپنی فیملی کے لیے نجی استعمال کیا جاسکتا ہے، یہ سرکاری افسر کا ایک قانونی حق ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ حکومت سرکاری گاڑیوں کے بدوں استحقاق استعمال، الاٹمنٹ اور ریکارڈ کے لیے ’وہیکلز انفارمیشن مینیجمنٹ سسٹم‘ لانچ کرنے جا رہی ہے، جس میں حکومت کی تمام سرکاری گاڑیوں کا ریکارڈ رجسٹرڈ کیا جا چکا ہے۔

بقول ماجد خان: ’اب کوئی بھی افسر یا حکومتی شخصیت پالیسی کے مطابق اپنے استحقاق سے زائد نہ تو کوئی گاڑی رکھ سکے گا، بلکہ اس کی بلنگ بھی کمپیوٹرائزڈ ہوگی جس سے گاڑیوں کا بے جا استعمال ناممکن ہو جائے گا۔

’اسی طرح کوئی بھی محکمہ اس سسٹم کے تحت اپنے پاس موجود گاڑیوں کی تعداد چھپا نہیں سکے گا، حکومت اس سسٹم کا سارا ریکارڈ عوام کی پہنچ میں رکھے گی تاکہ کوئی بھی سرکاری گاڑی کے معاملے میں پہلو تہی نہ کر سکے۔‘

وزیراعظم کشمیر چوہدری انوار الحق 1000 سی سی گاڑی استعمال کر رہے ہیں مگر وزرائے حکومت اور بیوروکریسی 3000 سی سی کی بڑی گاڑیاں کیوں استعمال کر رہی ہے؟ اس سوال پر ترجمان ماجد خان نے جواب دیا کہ ’وزیراعظم کو اپنے عہدے کے مطابق جس گاڑی کا استحقاق ہے وہ استعمال کر سکتے ہیں۔ اگر وہ کفایت شعاری کی پالیسی اپناتے ہوئے 1000 سی سی استعمال کرتے ہیں تو یہ ان کا مثبت پہلو ہے جبکہ وزرا کو جو گاڑیاں ہمارے پاس پرانے سلاٹ میں موجود تھیں، وہی دی گئی ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’کشمیر میں بہت سی جگہیں ایسی ہیں جہاں ابھی تک گاڑی بھی نہیں جاتی اور مشکل پہاڑی علاقوں میں صرف فور بائی فور گاڑی پر ہی سفر کیا جا سکتا ہے۔‘

عام شہری اس حوالے سے کیا کہتے ہیں؟

انڈپینڈنٹ اردو نے اس تناظر میں شہریوں کی رائے جاننے کی کوشش کی۔

سماجی کارکن فیصل جمیل کشمیری نے کہا کہ حکومت کی جانب سے وی آئی ایم سسٹم کا اجرا قابل ستائش ہے لیکن اس کا حال کشمیر میں لگائے جانے والے بائیو میٹرک سسٹم جیسا نہیں ہونا چاہیے۔ بائیومیٹرک سسٹم حاضری کے لیے لگایا گیا لیکن لوگوں نے اسے خراب کر دیا۔

’اگر اس سسٹم کو آگے لے کر چلنا ہے تو مسلسل چلائیں، ایسا نہ ہو کہ کل یہ وزیراعظم جائیں تو کہا جائے کہ یہ سسٹم بیٹھ گیا ہے۔‘

سول سوسائٹی مظفرآباد کے صدر راجہ آفتاب ایڈوکیٹ نے اس معاملے پر کہا کہ ’جیسا کہا جاتا ہے کہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور، یہاں پر وزیراعظم کشمیر کی جانب سے بھی یہی کیا جا رہا ہے۔ اگر وہ گاڑیوں کے بے جا استعمال پر گرفت کرنے کے لیے مخلص ہوتے تو سب سے پہلے اپنے سکواڈ میں موجود بڑی گاڑیاں کھڑی کرتے اور بے جا استعمال کو بند کرتے۔‘

راجہ آفتاب کے مطابق: ’مختلف محکمہ جات کے سیکریٹریوں کے پاس 8 سے 10 سرکاری گاڑیاں موجود ہیں، جنہیں ان کے خاندان میں موجود افراد الگ الگ استعمال کر رہے ہیں۔ وہ ان گاڑیوں کو پول میں جمع کرواتے تو تب جا کر ہم مان سکتے ہیں کہ وزیراعظم اس معاملے میں مخلص ہیں۔‘

ایک اور شہری راجہ افتخار کا کہنا تھا کہ ’چھوٹی سی ریاست کے پاس تقریباً چار ہزار گاڑیاں موجود ہیں، جن کی خریدوفروخت، فیول، مینٹی ننس ہمارے ٹیکسز سے کی جا رہی ہے۔ لوگ یہ سوچ رہے ہیں کہ ان گاڑیوں کا ناجائز استعمال ہو رہا ہے، لیکن عوام کو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ کسی بھی سرکاری افسر کو بیچ سڑک کے روک کر عزت نفس مجروح کرنا غلط اقدام ہے جو نہیں ہونا چاہیے۔ یہ بنیادی طور پر ریاست کی ذمہ داری ہے کہ اس معاملے پر قانون سازی کرنے کے بعد سرکاری افسران کو سرکاری گاڑیوں کے استعمال پر پابند کرے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان