پاکستانی حکام نے اتوار کو بتایا کہ بشام میں چینی ملازمین کی بس پر خودکش حملے میں ملوث 11 عسکریت پسندوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔
رواں سال مارچ میں افغان سرحد سے متصل علاقے بشام میں ایک بس پر خودکش حملے میں پانچ چینی ملازمین جان سے گئے تھے۔
لاہور میں قومی انسداد دہشت گردی اتھارٹی (نیکٹا) کے سربراہ رائے طاہر اور وزیر داخلہ محسن نقوی نے 26 مئی 2024 کو پریس کانفرنس کی، جس میں بتایا گیا کہ گرفتار افراد کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے ہے۔
رائے طاہر نے بتایا کہ خودکش حملے کے مقام سے ایک موبائل فون ملا جو خودکش بمبار اپنے مقامی ہینڈلرز سے بات چیت کرنے کے لیے استعمال کر رہا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس فون کے فرانزک تجزیے سے گرفتار افراد تک پہنچا گیا۔ ’تحقیقات اور شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ عسکریت پسند افغانستان میں ٹی ٹی پی رہنماؤں سے ہدایات لے رہے تھے۔‘
خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق پاکستانی فوج پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ حملے کی منصوبہ بندی افغانستان میں کی گئی تھی اور خودکش بمبار بھی ایک افغان شہری تھا۔ تاہم کابل اس الزام کی تردید کرتا ہے۔
اس سے قبل ٹی ٹی پی نے اس حملے میں ملوث ہونے کی تردید کی تھی اور اتوار کو اس کے ایک ترجمان نے کہا کہ تنظیم پہلے ہی حملے کے بارے میں اپنا موقف واضح کر چکی ہے۔
وزیر داخلہ محسن نقوی نے پریس کانفرنس میں کہا، ’ہمارے پاس یہ ثابت کرنے کے لیے فرانزک ثبوت ہیں کہ ٹی ٹی پی کے عسکریت پسند، جو افغانستان سے کام کر رہے تھے، اس میں ملوث ہیں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ ٹی ٹی پی کے مزید تین اہم ارکان کی گرفتاری کے لیے کابل سے قانونی معاونت حاصل کی جائے گی جو حملہ آور اور اس کے سہولت کار کو افغانستان سے ہدایت کر رہے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ہم چاہتے ہیں کہ افغانستان ان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے۔ یا تو ان پر وہاں مقدمات چلائیں یا انہیں ہمارے حوالے کر دیں۔‘
وزیر داخلہ نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ چینی شہریوں پر حملے کے لیے افغان سرزمین استعمال ہونے پر انہیں تشویش ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو بالکل اندازہ ہے کہ اس کے پیچھے کون سی طاقتیں ہیں جو ہمارے چین کے ساتھ تعلقات خراب کرنا چاہتی ہیں۔ وہ افغانستان کی عبوری حکومت کی کمزوری کا فائدہ اٹھا رہے ہیں جس کی وجہ سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔
’سرحدی علاقوں میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) جیسے دہشت گرد گروہ کو مدد فراہم کی جا رہی ہے، اس کے بہت سے شواہد موجود ہیں۔ ٹی ٹی پی، پاکستان کے مفاد کے خلاف کام کر رہی ہے اور چینی شہریوں پر حملے اور دہشت گردی کے دوسرے واقعات میں ملوث ہے۔‘
محسن نقوی کے مطابق: ’سرحد پار سے آنے والے یہ خطرات علاقائی سلامتی کے لیے مزید پچیدہ بنتے جا رہے ہیں۔ چینیوں کی سکیورٹی کو یہ خطرے میں ڈال رہے ہیں، کیونکہ یہ حملہ افغانستان سے کیا گیا ہے اور انہوں نے چینی شہریوں پر باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ حملہ کیا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پاکستان نے یہ مسئلہ افغانستان کی عبوری حکومت کے ساتھ اٹھایا ہے اور ان پر زور بھی دیا ہے کہ وہاں جو دہشت گرد کر رہے ہیں، آپ انہیں روکیں اور ان کے خلاف کارروائی کریں۔ لیکن ہمیں ابھی تک افغانستان سے کوئی اچھے نتائج نہیں آ رہے ہیں۔‘
کابل نے اس سے قبل کہا تھا کہ پاکستان میں بڑھتا ہوا تشدد اسلام آباد کے لیے ایک گھریلو مسئلہ ہے۔
محسن نقوی کے مطابق چینی شہریوں کی سکیورٹی بہت اہم ہے اور اس کے لیے انہوں نے نئے ایس او پیز بنائے ہیں جن پر سختی سے عمل درآمد کرا رہے ہیں۔
انہوں نے ہفتے کو بتایا تھا کہ وزیر اعظم کی ہدایت پر چینی و غیر ملکی شہریوں کی فول پروف سکیورٹی کے لیے داسو ۔ چلاس میں سیف سٹی منصوبہ شروع کیا جائے گا۔
وزارت داخلہ سے جاری ایک بیان کے مطابق محسن نقوی کی زیر صدارت ایک اجلاس میں طے پایا کہ داسو۔ چلاس میں سیف سٹی منصوبہ اسلام آباد اور لاہور کی طرح جدید تقاضوں کے مطابق شروع کیا جائے گا۔
اس حوالے سے وزیر داخلہ نے آئی جی اسلام آباد، آر پی او ہزارہ اور واپڈا کے نمائندوں پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی ہے جو 15 دنوں میں تفصیلی اور جامع پلان پیش کرے گی۔