ہم پاکستانی جب تک بابر اعظم کو وراٹ کوہلی یا سوات کو سوئٹزرلینڈ بنانے والی حرکت نہ کر لیں سکون کی نیند نہیں آتی۔ یہی سلوک ہم نے حال ہی میں ہم سے بچھڑنے والے طلعت حسین کے ساتھ روا رکھا ہے۔ پہلے انہیں ’پاکستان ٹیلی ویژن کا دلیپ کمار‘ بنایا، تسلی نہ ہوئی تو ’ڈراما نگاری کا شیکسپیئر‘ کہہ کر دل بہلا لیا۔
موت کے وقت ہمدردی کا جذبہ اور تعریف میں ذرا مبالغہ آمیزی قابل فہم ہے مگر یہ کیا کہ شیکسپیئر اور دلیپ کمار سے پہلے بریک ہی نہ لگے۔ بھئی اپنی نہ سہی مرحوم کی عزت کا کچھ خیال رکھ لیں۔
طلعت صاحب نے لندن اکیڈمی آف میوزک اینڈ ڈرامیٹک آرٹ سے تھیئٹر آرٹس میں ٹریننگ حاصل کی اور گولڈ میڈل حاصل کیا۔ وہ گفتگو ہمیشہ نستعلیق انداز میں کرتے۔ بہت پڑھے لکھے تھے۔ نجی محفلوں میں گھنٹوں ادب، فلسفے اور آرٹ پر گفتگو کر سکتے تھے۔ حال ہی میں رخصت ہونے کے بعد اگر وہ دیکھتے کہ انہیں دلیب کمار اور شیکسپیئر سے بھڑایا جا رہا ہے تو انہیں کتنی تکلیف ہوتی۔
شاید انہیں اس بات کا دکھ ہوتا کہ انہوں نے نصف صدی سے زیادہ عرصہ فن کو جگر کا خون اور دماغ کا تیل پلانے میں گزارا، مگر لوگ بجائے ان کی اپنی شخصیت اور فن کو اجاگر کرنے کے، انہیں ایسی شخصیات سے بھڑا رہے ہیں جن سے ان کا موازنہ بنتا ہی نہیں۔
الفاظ کی ادائیگی میں جذبات اور تاثرات کو سمو دینا، شیشے جیسا تلفظ، زبان اور اس کے بیان پر مکمل عبور، یہ ایسی صلاحیتیں ہیں جن میں طلعت صاحب کا کوئی ہم پلہ نہیں۔
شیکسپیئر کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ ان سے عظیم ڈراما نگار دنیا میں نہیں گزرا، لیکن طلعت صاحب کی ڈراما نگاری کی کاوشوں کے بارے میں ہمیں زیادہ نہیں جانتے۔ اسی طرح تاریخ میں یہ تو لکھا ہے کہ شیکسپیئر اپنے ہی ڈراموں میں اداکاری بھی کیا کرتا تھا، لیکن وہ کیسا اداکار تھا، اس کی خوبیاں اور خامیاں کیا تھیں، اس کے بارے میں تاریخ بالکل خاموش ہے۔ تو پھر سمجھ میں نہیں آتا کہ طلعت صاحب کو ان سے کیوں ملایا جایا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسی طرح ہندی سینیما میں دلیپ صاحب ایک عہد ساز شخصیت ہیں۔ انہوں نے اداکاری کا سانچہ ہی بدل کر رکھ دیا۔ وہ تھیئٹر سے نہیں آئے تھے اس لیے ڈائیلاگ ڈیلیوری میں ٹھہراؤ اور نرمی تھی، طلعت صاحب کی طرح وہ بھی پاز لیا کرتے تھے مگر کرداروں کے مطابق انہوں نے حیرت انگیز حد تک خود کو تبدیل کیا۔ ’گنگا جمنا‘ اور ’رام اور شیام‘ میں ان کا ڈبل رول بہترین اداکاری کے عمدہ نمونے ہیں۔
دلیپ صاحب اور راج کمار اور طلعت صاحب میں ایک اور بہت بنیادی فرق ہے۔ دلیپ صاحب ’میتھڈ ایکٹر‘ تھے، اس لیے اس فن کے تحت وہ اپنے نہ صرف چہرے، بلکہ پورے بدن کو تاثرات کا آئینہ بنا دیتے تھے۔ وہ مکالمہ ادا کیے بغیر بھی اپنے دل کے تاثرات بیان کر سکتے تھے، جس کی ایک مثال ’دیوداس‘ فلم ہے، جہاں وہ اندھیرے میں خاموش بیٹھے ہوئے بھی خود پر بیتی داستاں سنا رہے ہوتے ہیں۔
دلیپ کے مقابلے پر طلعت صاحب اپنی آواز، لہجے اور ادائیگی سے زیادہ کام لیتے تھے۔
طلعت صاحب کا شمار اپنی نسل کے سب سے عمدہ صداکاروں میں ہوتا ہے، اور وہ کیسی نسل ہے جس میں ضیا محی الدین، محمد علی اور طارق عزیز جیسے باکمال شامل ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس کہکشاں میں بھی طلعت حسین نے اپنی الگ شناخت بنا لی۔
ان چاروں نے آغاز ریڈیو سے کیا جہاں تصویر کی عدم موجودگی میں لب و لہجہ ہی سب کچھ ہوتا ہے۔ صاف اور روشن آوازوں نے انہیں ریڈیو پر مقبول اور کامیاب بنایا۔ ریڈیو کی تاریخ میں کیسے کیسے انمول رتن دفن ہیں جنہیں ہم یوٹیوب کا آب حیات نہ پلا سکے۔ پتہ نہیں وہ ریکارڈ ضائع ہو گیا یا کبھی موجود ہی نہ تھا مگر ریڈیو کے ڈراموں کو سننا اور طلعت حسین کی آواز سے اپنے ذہن میں کردار کی تصویر بنانا ایک خوبصورت تجربہ ہوتا۔
ریڈیو کے بعد طلعت حسین کی اگلی منزل ٹی وی تھی۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ اداکار کی پرفارمنس میں آواز کا کردار کتنا نمایاں ہوتا ہے۔ طلعت صاحب ریڈیو سے سب کچھ ساتھ لیے ٹی وی پر آ گئے۔ صداکاری کی مشق کے دوران طلعت صاحب کے لب و لہجے کا ایک مخصوص سانچہ بن گیا۔ وہ ٹی وی کی اننگز میں اسے کبھی توڑ نہ سکے۔
ہم اپنی بات ذرا دوسرے انداز میں کرتے ہیں۔ میں نے پہلی مرتبہ قاضی واجد کا نام 2018 میں سنا، جب وہ فوت ہوئے۔ ڈیلی موشن پر ان کا ڈراما ’خدا کی بستی‘ سامنے آ گیا۔ ناول پڑھ رکھا تھا، ڈراما دیکھنا شروع کیا تو مبہوت ہو کر رہ گیا۔ جس شخص نے ’خدا کی بستی‘ دیکھ رکھا ہے وہ راجہ کے کردار میں قاضی واجد کے علاؤہ کسی اور کا تصور ہی نہیں کر سکتا۔ ہم وہ ڈراما دیکھتے ہوئے قاضی واجد کو نہیں جانتے کیوں کہ قاضی صاحب وہاں موجود ہی نہیں۔ وہاں صرف راجہ ہے۔ کیا جاندار پرفارمنس تھی۔
اسی طرح ’وارث‘ ڈرامے میں محبوب عالم چوہدری حشمت علی کے کردار میں اس قدر ڈوبے کہ زندگی بھر اس سے باہر نہ آ سکے اور یہ کردار ان کی خامی بن گیا۔ البتہ اسی ڈرامے میں عابد علی دلاور کے روپ میں اجاگر ہوئے مگر بعد میں کئی مختلف قسم کے کردار بھی اسی خوبی سے نبھاتے رہے۔
’خواجہ اینڈ سن‘ میں علی اعجاز، ’دھوپ کنارے‘ میں راحت کاظمی نے کیسے زندہ رہ جانے والے کردار ادا کیے۔ ’جنگل‘ میں شفیع محمد اور ’جانگلوس‘ میں شبیر جان کا رحیم داد ’اندھیرا اجالا‘ میں عرفان کھوسٹ نے ’دہ جماتاں پاس، ڈائریکٹ حوالدار‘ کا کردار وہ نبھایا کہ آج بھی ذہنوں میں تازہ ہے۔ اسی ڈرامے میں جمیل فخری ایس ایچ او کے کردار میں ڈوب گئے۔
یہی اداکاری کا نقطہ کمال ہے۔ طلعت حسین کا معاملہ اس سے مختلف رہا۔ ان کی شخصیت چھائی رہتی ہے اور کردار دب جاتا ہے۔ آپ تصور کریں کہ تو طلعت صاحب کا شاید ہی کوئی ایسا کردار ذہن میں آئے جس میں ان کی شخصیت موجود نہ ہو۔ کردار وکیل کا ہو، دفتر میں بیٹھے ہوئے آفیسر کا یا کوئی بھی، وہ ایک ہی انداز میں بولتے ہیں، ہاتھوں کی حرکت سے لے کر چال ڈھال تک کم و بیش ہر چیز ایک جیسی رہتی ہے۔
یہاں تک کہ گھر میں کھانے کے ٹیبل پر بیٹھے ہیں تب بھی بات کرنے کا انداز وہی ہے جو عدالت میں کھڑے ہو کر وکیل کا ہوتا ہے۔ (یہ الگ بات کہ شوہر کے لیے گھر سے بڑی عدالت کوئی نہیں!)
اداکاروں میں اگر ان کی کسی سے مماثلت تلاش کرنی ہو تو راج کمار شاید سب سے موزوں شخص ہیں۔ واجبی شکل صورت کے باوجود راج کمار نے بالی وڈ میں کامیاب اننگز کھیلی جس کا سبب ان کی آواز تھی۔ اس کی بہترین مثال ’پاکیزہ‘ ہے۔ کمال امروہوی نے انہیں فلم میں کاسٹ ہی اس لیے کیا کہ کوثر و تسنیم میں دھلی زبان بول سکیں۔ طلعت صاحب اور راج کمار میں بطور اداکار جو بات مشترک تھی وہ تھی دل میں اترنے والی آواز۔
وسعت اللہ خان صاحب کے بقول ’عالمی سینما پر گفتگو میں ان کے لبوں پر مارلن برانڈو، لارنس اولیور، جیک لیمن، سڈنی پوئٹر، ہنری فونڈا، آڈری ہیبرن، اینتھنی ہاپکنز اور رابرٹ ڈی نیرو کا نام آ جاتا تھا۔ دلیپ کمار کے مداح تھے۔‘
ان ناموں کی عظمت ان کے تنوع میں چھپی ہے۔ طلعت صاحب ایک ٹائپ ایکٹر تھے، ان سے تنوع کی توقع کرنا سراسر زیادتی ہے۔ دراصل غیر ضروری موازنہ کرتے ہوئے ہم اپنی محبوب شخصیت کو ایکسپوز کرنے کا دروازہ کھول رہے ہوتے ہیں۔
طلعت حسین کے بارے میں سب سے اچھا تبصرہ ڈاکٹر انور سجاد نے کیا: ’طلعت حسین صرف ایک ہے، اس کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا۔ طلعت کا نقال تو شاید مل جائے لیکن کوئی دوسرا طلعت حسین نہیں بن سکتا۔‘
اس لیے ہماری درخواست ہے کہ طلعت حسین کو طلعت حسین ہی رہنے دیجیے، انہیں دلیپ کمار، شیکسپیئر یا مارلن برانڈو نہ بنائیے۔
کیا یہ کافی نہ نہیں کہ طلعت صاحب اپنی اداکاری سے لطف اندوز ہوئے، پرانی نسلوں نے انہیں دیکھا اور پسند کیا، اور آج ان کے رخصت ہونے پر لاکھوں دل افسردہ ہیں، انہیں یاد کر رہے ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔