لاہور: سابق وزیراعظم نواز شریف چھ سال بعد ن لیگ کے صدر منتخب

نو منتخب صدر کے نام کے باقاعدہ اعلان کے لیے مسلم لیگ (ن) کی جنرل کونسل کا اجلاس کچھ دیر بعد لاہور کے ایک نجی ہوٹل میں ہو گا

پاکستان مسلم لیگ ن قائد میاں محمد نواز شریف 21 اکتوبر 2023 کو لاہور کے گریٹر اقبال پارک میں جلسہ عام سے خطاب کر رہے ہیں (مسلم لیگ ن فیس بک)

سابق وزیر اعظم نواز شریف کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کا چھٹی مرتبہ صدر منتخب کر لیا گیا ہے۔

پی ایم ایل این کے سابق صدر اور وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف کے پارٹی عہدے سے استعفے کے بعد نئے صدر کے چناؤ کے لیے جماعت کا الیکشن ہوا، جس میں پارٹی صدر کے عہدے کے لیے نواز شریف کے چاروں صوبوں سے الگ الگ آٹھ کاغذات نامزدگی جمع کروائے گئے۔

نو منتخب صدر کے نام کے باقاعدہ اعلان کے لیے مسلم لیگ (ن) کی جنرل کونسل کا اجلاس کچھ دیر بعد لاہور کے ایک نجی ہوٹل میں ہو گا، جس میں انٹرا پارٹی الیکشنز کے نتیجے میں نواز شریف کے بطور صدر منتخب ہونے کا اعلان کیا جائے گا۔

ذرائع کے مطابق جنرل کونسل اجلاس میں سابق وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق کو پارٹی کا جنرل سیکرٹری منتخب کیا جائے گا۔

پارٹی صدر کے انتخاب کے لیے پاکستان مسلم لیگ ن نے جنرل کونسل کا اجلاس منگل کو لاہور کے ایک مقامی ہوٹل میں طلب کر رکھا ہے، جس میں آج یعنی 28 مئی کو یوم تکبیر کے یادگاری دن پر پارٹی قائد کو دوبارہ صدارت سونپنے کے انتخاب ہوں گے۔

وزیراعظم پاکستان اور موجودہ عبوری صدر ن لیگ شہباز شریف نے پہلی بار یوم تکبیر پر عام تعطیل کا بھی اعلان کیا ہے۔

مسلم لیگ ن کے الیکشن کمشن کے سربراہ رانا ثنااللہ جبکہ اقبال ظفر جھگڑا، عشرت اشرف، جمال شاہ کاکڑ اور کیل داس کوہستانی الیکشن کمشن کے ارکان میں شامل ہیں۔

پارٹی صدر کے الیکشن کے لیے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال 28 مئی کی دوپہر ایک سے دو بجے تک جاری رہے گی جبکہ سہ پہر چار بجے ن لیگ کی مرکزی جنرل کونسل نئے صدر کا انتخاب کرے گی۔

نواز شریف کے مقابلے میں 10 لوگوں نے کاغذات نامزدگی حاصل کر لیے ہیں۔

رانا ثنااﷲ نے صحافیوں سے گفتگو میں بتایا کہ قائداعظم کے بعد نواز شریف نے پارٹی کو مقبول بنایا ہے۔

نواز شریف روٹھے ہوئے نہیں متحرک ہیں۔ ن لیگ سے مراد نواز شریف ہے پارٹی نواز شریف کے نام پر متفق ہے یہ کوئی عجیب بات نہیں۔ شاہد خاقان عباسی بھی  کاغذات جمع کرا سکتے ہیں۔ پارٹی آئین کے مطابق الیکشن کا پروسیس شروع کیا گیا ہے۔‘

کاغذات نامزدگی حاصل کرنے والوں میں بشیر میمن‘ عرفان صدیقی‘ اسحاق ڈار‘ راجا محمد فاروق‘ حافظ حفیظ الرحمنٰ‘ شاہ غلام قادر شامل ہیں۔ ان میں سے اگر کوئی اور امیدوار نہ ہوا تو بلامقابلہ صدر منتخب ہو گا ورنہ شو آف ہینڈ سے الیکشن ہو گا۔

ملک کے دیگر شہروں سے تعلق رکھنے والے ن لیگی رہنما اور اراکین اسمبلی بھی اس انتخاب میں حصہ لینے کے لیے لاہور پہنچ چکے ہیں۔

نواز شریف کو سیاسی محاذ گرم کرنے کے لیے صدر بنایا جا رہا ہے؟

مسلم لیگ ن کے رہنما شیخ روحیل اصغر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’انہیں پارٹی صدر منتخب کرانے کی تیاری مکمل کر لی گئی ہے۔ جہاں تک ان کو دوبارہ اس عہدے پر فائز کرنے کی ضرورت کا سوال ہے تو پارٹی ان ہی کے نام سے ہے، ووٹ بینک ان ہی کا ہے۔ لوگ ان کی قیادت پر اعتماد کرتے ہیں یہاں تک کہ وفاق اور صوبائی حکومت بھی ان کے نام پر ملنے والے ووٹوں کے نتیجے میں بنی ہے۔

روحیل اصغر کا کہنا تھا کہ ’ان کے عہدہ سنبھالنے پر پارٹی کی مقبولیت اور عوامی حمایت میں کتنا اضافہ ہوتا ہے یا عوامی مسائل حل کرنے میں کتنی مدد ملتی ہے یہ تو ان کے عہدہ سنبھالنے کے بعد ہی معلوم ہو گا، اس کے علاوہ حکومتی امور میں ان کے تجربے سے کس طرح فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے یہ بھی اہم صورت حال ہو گی۔‘

اس حوالے سے بات کرتے ہوئے میاں مرغوب احمد نے کہا کہ ’جس طرح نواز شریف کے خلاف کئی سال مہم چلائی گئی، ان کے خلاف من گھڑت جھوٹے بیانیے بنے اور کیس بنائے گئے، ناحق جیلوں میں بند رکھا گیا، وقت نے ان سارے کرداروں کو بے نقاب کردیا اور میاں صاحب کی بے گناہی بھی ان ہی عدالتوں سے واضح ہو گئی۔‘

انہوں نے کہا کہ ’نواز شریف کی ملک کے لیے طویل خدمات ہیں انہیں مائنس کرنے کا خواب دیکھنے والے خود مائنس ہو گئے، لہذا ہماری پارٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ انہیں دوبارہ پارٹی صدر بنایا جائے جن کے نام سے پارٹی ہے اور ووٹ بینک ہے۔ یہ کوئی ضرورت نہیں بلکہ اپنے قائد کو خراج تحسین ہے جو ان کا حق بنتا ہے۔‘

پارٹی منظم کرنے میں کتنی مدد مل سکتی ہے؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

میاں مرغوب احمد کے بقول: ’ویسے تو حالیہ انتخاب میں ن لیگ نے کامیابی حاصل کی ہے لیکن جس طرح پہلے وفاق میں ہماری جماعت اکیلے حکومت بناتی آئی ہے وہ نتائج نہیں مل سکے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ نواز شریف سمیت ہماری ساری قیادت کے خلاف انتقامی کارروائیاں ہوتی رہیں انہیں کئی سال لندن گزارنا پڑے۔ اس لیے پارٹی اس طرح منظم نہیں رہی جس طرح ماضی میں ہوتی تھی۔ ان کے دوبارہ صدر بننے سے ایک بار پھر ملک بھر میں عہدیداروں کو متحرک کیا جاسکے گا۔ مختلف حلقوں میں پارٹی امیدواروں سے مشاورت کر کے عوامی مسائل حل کرنے میں مدد ملے گی۔

’عہدہ سنبھال کر شاید وہ جلسے وغیرہ تو نہ کریں البتہ رہنماؤں اور کارکنوں سے ملاقاتوں میں ان کے تحفظات ضرور ختم کیے جا سکیں گے۔ ان کے ساتھ دیگر پارٹی رہنماوں کو بھی ذمہ داریاں سونپی جائیں گی تاکہ وہ بھی اپنا کردار ادا کرتے رہیں۔‘

شیخ روحیل اصغر کے مطابق: ’میاں صاحب چاہتے ہیں کہ پارٹی رہنماؤں کو متحرک رکھا جائے لیکن جب کوئی سیاسی جماعت اقتدار میں ہوتی ہے اس کی پہلی ذمہ داری عوامی مسائل حل کرنا ہوتا ہے۔ لہذا نواز شریف کو صدر بنانا اسی کا شاخسانہ ہے کہ کس طرح بہتر ڈیلیور کیا جائے، نئے پارٹی عہدیداروں کی تقرری بھی اسی بنیاد پر کی جائے گی۔‘

پارٹی صدارت کے بعد جماعت کے دیگر عہدوں پر تقرریوں کا اختیار بھی نواز شریف کو دوبارہ مل جائے گا۔

پہلے بھی پارٹی کے فیصلے نواز شریف کی مشاورت سے ہی ہوتے رہے ہیں مگر اب شہباز شریف کو پارٹی کی کیا ذمہ داری ملے گی؟ مریم نواز جو چیف آرگنائزر ہیں ان کے حصے میں مذید کونسا عہدہ آئے گا یہ طے ہونا باقی ہے۔

اسی طرح رانا ثنااللہ پنجاب کے صدر ہیں وہ برقرار رہیں گے یا انہیں؟ پارٹی کے جنرل سیکریٹری احسن اقبال ہیں ان کا کیا ہوگا اور کیا دیگر تین صوبوں کے صدور بھی تبدیل کیے جائیں گے یہ سب فیصلے نو از شریف کے پارٹی صدر بننے کے بعد ہی طے ہوگا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست