گرمی کی لہر غالب آتی ہے تو انڈیا اور پاکستان میں گھریلوں خواتین متاثر ہوتی ہیں۔ یہ خصوصی مضمون انڈپینڈنٹ اردو کے لیے لکھا گیا ہے جس میں اس بات کا احاطہ کیا گیا ہے کہ خواتین کس طرح گرمی کا مقابلہ کرتی ہیں۔
دہلی کے علاقے سودا میں آٹھ بچوں کے ساتھ رہنے والی زرینہ بیگم کا ایک کمرے کا مکان گرمی کی لہر کے دوران رہنے کے لیے ناقابل برداشت ہو جاتا ہے۔
زرینہ بیگم کے شوہر اور بیٹے صبح سویرے کام کے لیے نکل جاتے ہیں اور شدید گرمی کو برداشت کرنے کے لیے وہ چھوٹے سے مکان میں اپنی بیٹی کے ساتھ ہوتی ہیں۔
ہزاروں کلومیٹر دور پاکستان کے شہر پشاور میں شبینہ کو بھی گرمی کی لہر کے دوران اسی طرح کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
تین کمرے کے کچے مکان میں تین بچوں کے ساتھ رہنے والی شبینہ کو 50 ڈگری سیلسیس تک پہنچنے والے درجہ حرارت کے دوران لوڈشیڈنگ کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے جو گرمی کی شدت کو کئی گنا بڑھا دیتی ہے۔
گھروں میں کام کرنے والی 50 سالہ شبینہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’اتنی زیادہ گرمی کو برداشت کرنے کے لیے بار بار نہانا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی دوسرا حل نہیں ہوتا۔‘
دیگر خواتین کی طرح شبینہ معاشرتی اقدار کی وجہ سے شدید گرمی میں بھی گھر سے باہر کم نکلتی ہیں۔
انڈیا اور پاکستان کو رواں سال پھر گرمی کی لہر نے لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ کئی مرتبہ پاکستان کے شہر لاہور اور انڈیا کے دارالحکومت دہلی سمیت دیگر شہروں میں درجہ حرارت 48 سے 50 سیلسی تک پہنچتا ہے۔
ٹائمز آف انڈیا کے مطابق چند دن قبل دہلی میں تاریخ میں پہلی مرتبہ درجہ حرارت 53 سیلسیس تک پہنچا، جس سے دوسرے طبقات سمیت گھریلوں خواتین بھی بری طرح متاثر ہوئیں۔
گرمی کی لہر کے دوران خواتین کو کام کی جگہ اور زیادہ تر معاشی طور پر کمزور خواتین کو گھروں تک محدود ہونے کے باعث شدید گرمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ورلڈ میٹرالوجیکل تنظیم کے مطابق پاکستان اور انڈیا میں گرمی کی لہر میں گذشتہ کچھ عرصے میں 100 گنا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
اقوام متحدہ کے انٹر گورنمنٹ پینل برائے موسمیاتی تبدیلی کی تحقیق کے مطابق گذشتہ 30 سالوں میں گرمی کی لہر کے دوران تین دن کا اضافہ ہوا ہے اور یہ دورانیہ 2060 تک 12 سے 18 روز تک بڑھ سکتا ہے۔
گھریلوں خواتین اور گرمی کی لہر
برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی کے تحقیق کے مطابق اس شدید گرمی کی لہر سے خواتین سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہیں۔
اسی تحقیقی مقالے کی محقق اور کیمبرج یونیورسٹی کی پروفیسر رونیتا بردان کے مطابق انڈیا اور پاکستان میں خواتین زیادہ اس لیے متاثر ہوتی ہیں کیونکہ وہ مردوں کے مقابلے میں دن کا 54 فیصد دورانیہ گھروں کے اندر گزارتی ہیں۔
اسی تحقیق کے مطابق، ’گرمی کی لہر کا اثر خواتین کے لیے زیادہ گمبھیر اس لیے بھی ہوتا ہے کہ ان کے گھروں کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے کوئی باقاعدہ نظام موجود نہیں ہوتا۔‘
پروفیسر برردان کے مطابق انڈیا کے دیہی علاقوں میں مردوں کے مقابلے میں خواتین 57.6 فیصد زیادہ کام گھروں کے اندر (ڈومیسٹک ماحول میں) کرتی ہیں۔
تحقیق کے مطابق، ’یہی(گھروں کے اندر کام کرنا) ان خواتین کو گرمی کی شدید لہر کے دوران متاثر کرتا ہے اور یہ تب ہوتا ہے جب وہ کھانے پکانے جیسے کام کرتی ہیں۔‘
پشاور کی شبینہ گرمی کی تپش کم کرنے کے لیے بار بار نہانے کا سہارا لیتی ہیں، تاہم پروفیسر برردان کے مطابق بعض علاقوں میں گرمی کے دوران پانی کی قلت بھی ایک سنگین مسئلہ بن جاتا ہے۔
کپڑے اور گرمی کی لہر
اس تحقیق میں پروفیسر بردان نے انڈیا اور پاکستان میں روایتی کپڑوں کا بھی ذکر کیا ہے، جن میں گرمی کی شدت مزید بڑھ جاتی ہے کیونکہ یہ کپڑے حدت کو جذب کرتے ہیں۔
پروفیسر بردان کے مطابق انڈیا اور پاکستان میں مختلف علاقوں میں معاشرتی اقدار کے باعث خواتین جسم کو مکمل طور پر ڈھانپتی ہیں، جس سے گرمی مزید ناقابل برداشت ہو جاتی ہے۔
پشاور کے انسٹیٹیوٹ آف منیجمنٹ سائنسز میں ماہر ماحولیات پروفیسر محمد رفیق بھی پروفیسر بردان سے اتفاق کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ شدید گرمی کی لہر سے معاشی طور پر کمزور طبقات جیسے خواتین، بچے اور بزرگ زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔
پروفیسر رفیق نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا، ’انڈیا اور پاکستان کے دیہی علاقوں میں لکڑی اور پانی لانا اور زراعت جیسے کام خواتین اور بچوں سے بھی کروائے جاتے ہیں ، جس کی وجہ سے وہ گرمی سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ عام طور پر ذیابیطس میں مبتلا خواتین کو گرمی میں پانی کی کمی کا شکار ہو جاتی ہیں، جس سے صحت پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
گرمی کی لہر کا مقابلہ کرنے والی خواتین
انڈیا اور پاکستان میں مختلف سرکاری و غیر سرکاری ادارے گرمی کی لہر پر قابو پانے کے لیے خواتین سمیت دیگر افراد کی مدد اور اس کے حل کے لیے کوششیں بھی کرتے رہتے ہیں۔
انڈیا میں ماہیلا ہاؤسنگ ٹرسٹ نامی ادارہ بھی ایسا ہی ایک منصوبہ چلاتا ہے جس ے تحت معاشی طور پر کمزور خواتین کے لیے گرمی کو برداشت کرنے والے گھر تعمیر کیے جاتے ہیں۔
اس منصوبے میں گھروں کی چھتوں کو چونا اور چھت میں زیادہ درجہ حرارت کو برداشت کرنے والا مواد استعمال کیا جاتا ہے۔
اس پروگرام کے کووآرڈینیٹر بھاؤنا ماہریریا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ چھتوں کو سفید رنگ، گرین چھتیں اور بعض گھروں میں ایسی پلاسٹک شیٹس استعمال کی جاتی ہیں جو بطور وینٹیلیشن کام کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا، ’ابھی ایک انشورنس سکیم شروع کی گئی ہے، جس میں غریب خواتین کو گرمیوں میں وظیفہ دے کر کام نہ کرنے پر اکسایا جاتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم دہلی کی زرینہ بیگم کو اس وظیفے کا علم نہیں تھا۔ تاہم معلوم ہونے پر انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مستقبل میں وہ ضرور اس قسم کے حل کی تلاش کے لیے کوشش کریں گی۔
تاہم ماہرین کے مطابق اس مسئلے کے حل کے لیے طویل المدت مںصوبوں کی ضرورت ہے، جن کے ذریعے جنسی امتیاز کے خاتمے کے علاوہ خواتین بھی گرمی کی شدید لہر سے محفوظ رہ سکیں۔
کیمبرج یونیورسٹی کی پروفیسر بردان سمجھتے ہیں کہ صنفی امتیاز سے بالاتر ایسے شہری منصوبوں کی ضرورت ہے، جن سے معاشی طور پر کمزور خواتین شدید گرمی کا مقابلہ کر سکیں۔
انہوں نے بتایا، ’ان پالیسیوں میں ایسے منصوبوں کی بھی ضرورت ہے، جن میں ایسے مکانات تعمیر کیے جا سکیں جو زیادہ درجہ حرارت کو برداشت کرنے کے قابل ہوں۔‘
پروفیسر بردان کے مطابق اس کے علاوہ ایسی پالیسیاں بھی ہونا چاہیے جن سے خواتین کو معاشی طور پر مضبوط بنایا جا سکے تاکہ معاشی طور پر کمزور خواتین گرمی سے بچاؤ کے لیے گھروں میں انتظام کرسکیں۔
پشاور کے پروفیسر رفیق موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے گرمی کی لہر کو کم اور برداشت کرنے کے لیے قدرتی حل کو زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ زیادہ درخت لگانا، تعمیرات میں درجہ حرارت کو برداشت کرنے والا مٹیریل کا استعمال، پانی کی ری سائکلنگ اور پہلے سے موجود تعمیرات کو ہیٹ پروف بنانا جیسے اقدامات اس مسئلے کا حل ہو سکتے ہیں۔
حکومتیں کیا کر رہی ہیں؟
انڈیا اور پاکستان میں حالیہ کچھ برسوں میں ہر سال گرمی کی شدید لہر کا سامنا ہے، جس سے اموات بھی واقع ہو چکی ہیں۔
انڈیا کے شہر احمد آباد میں 2010 کی گرمی کی لہر میں جب درجہ حرارت 47 سلسیس سے تجاوز کر گیا تھا، تو گرمی کی وجہ سے نوزائیدہ بچوں کے ہسپتال میں داخلے کی شرح میں 43 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا تھا۔
پلاس ون نامی جریدے میں 2014 میں شائع ایک تحقیقی مقالے کے مطابق گرمی کی لہر سے خواتین میں اموات کی شرح مردوں سے زیادہ ہے اور 2010 سے 2014 تک گرمی کی وجہ سے 427 خواتین اور 373 مردوں کی اموات واقع ہوئیں۔
انڈیا کے شہر احمد آباد 2010 میں انڈیا کا پہلا شہر تھا جہاں ہیٹ ایکشن پلان کا اعلان کیا گیا تھا، جس میں گرمی کی لہر کے دوران ایمرجنسی بنیادوں پر اقدامات کرنے کا احاطہ کیا گیا۔
اسی پالیسی کی وجہ سے گرمی کی لہر سے اموات کی شرح میں خاطر خواہ کمی دیکھنے کو ملی ہے جب کہ دوسری جانب پاکستان میں بھی قدرتی آفات سے نمٹنے والا سرکاری ادارے نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی نے بھی ایسی ایک پالیسی مرتب کی ہے۔
اس پالیسی کے مطابق گرمی کی لہر آنے سے پہلے عوام کو پیشگی اطلاع اور اس سے بچنے کے لیے حفاظتی اقداماف اٹھانے کے لیے بتایا جائے گا۔
پالیسی کے مطابق، ’گرمی کی لہر سے متاثرہ علاقوں میں میڈیکل کیمپ اور دیگر لازمی سامان کی موجودگی یقینی بنائی جائے گی۔‘
تاہم پروفیسر بردان سمجھتے ہیں کہ یہ پالیسیاں ملٹی ڈائمینشنل ہونی چاہیے یعنی متاثرہ علاقوں میں شیڈ، میڈیکل کیمپ اور دیگر سہولیات تو ہونا چاہیے لیکن ساتھ میں جن کا کام متاثر ہوتا ہے، حکومتی سطح پر ان کا ازالہ بھی ضروری ہے۔
یہ مضمون نیپال میں ہونے والے سرحد پار موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے ورکشاپ کا حصہ ہے جس کا اہتمام امریکہ کے ایسٹ ویسٹ سنٹر نامی نتظیم نے کیا تھا۔