دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی آج ماحولیات کے تحفظ کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ ملک کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے پنجاب کی حکومت نے پانچ جون کو پلاسٹک بیگز (شاپنگ بیگز) کے استعمال پر قابو پانے کا اعلان کیا ہے۔
دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی پلاسٹک سے بنی اشیا خاص طور پر پلاسٹک بیگز کا روزمرہ استعمال انسانی زندگیوں میں اتنا لازمی ہوچکا ہے کہ اسے ختم کرنا ناممکن دکھائی دیتا ہے البتہ حکومت اس کے استعمال کو تبدیل کرنے کی حکمت عملی بنا رہی ہے۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ پانچ سالوں میں پاکستان میں 55 ارب شاپنگ بیگز روزانہ استعمال ہو رہے ہیں۔ جس میں سالانہ 15 فیصد تک اضافہ ہو رہا ہے۔
ڈبلیو ایچ او سمیت کچھ ممالک کی تنظیموں کی جانب سے کی جانے والی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ دنیا کا ہر بالغ شخص سالانہ 50 ہزار پلاسٹک ذرات نگل رہا ہے۔
سرکاری اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں پلاسٹک بیگز بنانے والی رجسٹرڈ فیکٹریوں کی تعداد 18ہزار سے زیادہ ہے۔ لاکھوں افراد کا روزگار اس صنعت سے وابستہ ہے۔ چھوٹے بڑے شاپنگ بیگز کی یومیہ پیداوار 500 کلوگرام ہے۔
ڈائریکٹر جنرل محکمہ تحفظ ماحولیات پنجاب عمران حامد شیخ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح پاکستان میں بھی پلاسٹک بیگز یا شاپنگ بیگ کے استعمال سے ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جبکہ دریاؤں اور سمندر میں شاپنگ بیگ پھینکنے سے آبائی حیات بھی متاثر ہو رہی ہے۔
’اس کے علاوہ سیوریج کا نظام پلاسٹک بیگز جمع ہونے سے چوک ہوجاتا ہے۔ یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ اب روز مرہ زندگی سے پلاسٹک بیگز کو ختم کرنا ناممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پابندی کے باوجود ابھی تک اسے ختم نہیں کیا جاسکا۔‘
عمران حامد کے بقول، ’پلاسٹک بیگز جو ہمارے ہاں لاکھوں کی تعداد میں روزانہ پھیل رہے ہیں یہ کئی سو سال تک ضائع نہیں ہوتے اور آلودگی میں اضافے کا سبب بنتے رہتے ہیں۔ اس لیے ہم نے قابل عمل حل نکالا ہے چھوٹے اور پتلے شاپنگ بیگ پر پانچ جون سے مکمل پابندی کو یقینی بنائیں گے۔
’تاہم شاپنگ بیگ بنانے کے لیے فیکٹری مالکان کو کم از کم وزن 75 مائیکرونز رکھنے کا پابند کیا گیا ہے۔ ایک سے ڈیڑھ سال میں مارکیٹ سے موجودہ ہلکے اور چھوٹے شاپنگ بیگ ختم کر دیے جائیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وزنی موٹے پنے سے بنا شاپنگ بیگ کباڑ میں اٹھا کر ری سائیکل ہوسکے گا۔ ہم نے فیکٹری مالکان سے ملاقات کر کے انہیں آمادہ کر لیا ہے اس لیے شاپنگ بیگ کا سائز بھی کم از کم ایک فٹ لمبا اور آدھا فٹ چوڑا رکھا جائے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس کے ساتھ شرط عائد کی گئی ہے کہ فیکٹری مالکان پلاسٹک کے کچرے سے بنے دانے اور پرانے شاپنگ بیگوں کو ری سائیکل کر کے کم از کم 20 فیصد تک طے شدہ وزن اور سائز کے شاپنگ بیگ تیار کریں گے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان میں گذشتہ کئی دہائیوں سے ہر سال ماحولیات کے عالمی دن پر پنجاب کی ہر صوبائی حکومت پلاسٹک بیگز یا شاپنگ بیگوں پر پابندی عائد کرتی رہی ہے۔ سب سے پہلے شہباز شریف کی حکومت نے پہلی بار 1998میں پابندی عائد کی، پھر پرویز الہی حکومت نے بھی اس پابندی کو برقرار رکھنے کا اعلان کیا۔
اس کے بعد دوبارہ شہباز حکومت آئی پھر پابندی کا اعلان ہوا، دوسری بار بھی اعلان کیا گیا۔ اس کے بعد جب 2018 میں تحریک انصاف کی حکومت آئی انہوں نے بھی پلاسٹک بیگز پر پابندی عائد کر کے عمل درآمد کرانے کی بھر پور کوشش کی۔
اس بار پابندی پر پوری طرح تو عمل نہ ہوسکا البتہ بڑے سٹورز پر پلاسٹک بیگز کی جگہ کپڑے اور دھاگے سے بنے بیگز کا استعمال شروع ہوا۔ تاہم شہریوں کو اس کےاستعمال پر اعتراض نہیں لیکن اس بیگ کی 10 سے 15 روپے قیمت وصولی پر تحفظات ضرور ہیں۔
1965 میں سویڈن کی ایک کمپنی کی جانب سے متعارف کرائے گئے پولیتھین یا پلاسٹک بیگز آج دنیا بھر میں عام ہو چکے ہیں۔ پاکستان میں پلاسٹک کے شاپنگ بیگز 80 کی دہائی میں شروع ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان بھر میں استعمال ہونے لگے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے متنبہ کیا ہے کہ پلاسٹک کی تھیلیوں، ڈسپوزایبل کپ اور ربر میں ایک کیمیکل ہوتا ہے جس کے سبب لوگوں کی صحت پر اثر پڑ سکتا ہے اور بہت سی بیماریاں بھی ہوسکتی ہیں جن میں کینسر بھی شمار ہو سکتا ہے۔
دوسرے ممالک کی طرح پلاسٹک بیگز کا استعمال اتنا زیادہ ہے کھانے پینے کی اشیا سے لے کر استعمال کی اشیا کے لیے بھی شاپنگ بیگ ہی استعمال ہوتا ہے۔ کئی بار تو شہری شاپنگ بیگ بھی ڈبل استعمال کرتے ہیں کیونکہ اکثر دوکانوں پر یہ مفت ملتا ہے۔
اس کے علاوہ پیکنگ میں بھی پلاسٹک کے کور کا استعمال ہوتا ہے۔ اسے ختم کرنا کسی بھی حکومت کے بس میں نہیں اسی لیے موجودہ حکومت نے اس بار یہ حل نکالا ہے کہ شاپنگ بیگ کو تبدیل کر دیا جائے۔
پلاسٹک بیگز فروخت کرنے والی لاہور کی مارکیٹ میں تاجروں کا کہنا ہے کہ ’روزانہ کی بنیاد پر بڑی تعداد میں شاپنگ بیگ فروخت ہوتے ہیں جس سے لاکھوں افراد کا روزگار وابستہ ہے اگر حکومت اس پر پابندی عائد کرتی ہے تو ان کا نقصان کون پورا کرے گا۔ ہر چیز کے لیے شاپنگ بیگ استعمال ہوتا ہے اگر یہ بند ہوگا تو متبادل حکومت کیا بندوبست کرے گی۔‘
شاپنگ بیگ استعمال کرنے والے شہریوں کا کہنا ہے کہ ’یہ بات درست ہے کہ جب شاپنگ بیگ نہیں تھا تب بھی لوگ چیزیں لانے لے جانے کے لیے کوئی نہ کوئی حل نکالتے تھے۔ برتن اور کپڑے کے تھیلے استعمال کرتے تھے۔ لیکن جب سے شاپنگ بیگ استعمال ہونا شروع ہوا لوگوں کو یہ سہولت بہتر لگی تو اپنا لی۔‘
لوگوں کا کہنا ہے کہ بیشتر لوگ دفاتر سے یا کام سے واپسی پر گھر کا سامان لے جانے یا پیکنگ کے لیے شاپنگ بیگ استعمال کرتے ہیں وہ ساتھ لے کر نہیں گھومنا پڑتا۔ صحت کے مسائل اپنی جگہ لوگوں کو بھی اس قسم کے اقدامات میں حکومت کا ساتھ دینا چاہیے۔‘