پاکستانی حکومت نے باضابطہ طور یہ اعلان نہیں کیا کہ وفاقی بجٹ 2024 کب پیش کیا جائے گا لیکن قومی اسمبلی سیکرٹیریٹ کے اعلی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ہے کہ بجٹ 12 جون کو پیش کیا جائے گا جبکہ وزیر مملکت برائے خزانہ علی پرویز ملک کا کہنا ہے کہ بجٹ 10 سے 12 جون تک پیش کیا جائے گا۔
وفاقی بجٹ پیش کرنے کی حتمی تاریخ کا اعلان نہ ہونے کی وجہ سے قیاس آرائیاں جنم لے رہی ہیں کہ اس تاخیر کی وجہ دوست ممالک اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے ملک کی معیشت کو ڈھارس دینے کے لیے کچھ یقین دہانیاں حاصل کرنی ہیں۔
قومی اسمبلی سیکرٹیریٹ کے اہلکار نے کہا کہ ’قومی اسمبلی کے سیشن کا پہلا اجلاس سات جون کو بلایا جائے گا جو بجٹ سیشن ہوگا اور اسی سیشن میں چند روز بعد یعنی 12 جون کو وفاقی بجٹ پیش کیا جائے گا۔‘
اگرچہ نئے مالی سال کا آغاز ہر سال یکم جولائی سے ہوتا ہے لیکن عموماً بجٹ مئی کے آخر یا جون کے اوائل میں پیش کر دیا جاتا ہے تاکہ بجٹ تجاویز پر جامع بحث کے بعد اسے حتمی شکل دی جائے۔
قومی اسمبلی سکریٹریٹ کے اہلکار نے مزید بتایا ہے کہ سکریٹریٹ نے وفاقی بجٹ کے اجلاس کی تیاریاں مکمل کر لی ہیں۔
یہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب پارلیمان کے دونوں ایوانوں سینیٹ اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں کی تشکیل ہونی باقی ہے۔
ماضی میں جون کی 12 تاریخ تک بجٹ پیش ہوتا رہا ہے۔ تاہم یہ پہلی مرتبہ ہوگا جب اجلاس کی کارروائی کے دورانیے میں اضافہ کرنا پڑے گا اور پارلیمانی روایات کے برعکس 12 جون تک کمیٹیاں نہ بننے کی صورت میں ان کے بغیر ہی بجٹ کو ایوان سے منظور یا مسترد کیا جائے گا۔
پارلیمانی روایات کے مطابق قومی اسمبلی میں وفاقی بجٹ یا فننانس بل پیش کیے جانے اور اس پر بحث کے بعد اسے ایوان بالا یعنی سینیٹ میں بھیجا جائے گا۔
سینیٹ میں بل پیش کیے جانے کے بعد اسے ایوان کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں بھیجا جاتا ہے جہاں اس کے ہر نقطے پر تفصیل سے بحث ہوتی ہے۔ کمیٹی یہ تمام کام ایک مقرر کردہ وقت میں کرتی ہے۔
سینیٹ کی خزانہ کمیٹی بل پر تجاویز تیار کر کے اسے ایوان میں پیش کرتی ہے جس کے بعد سینیٹ انہیں قومی اسمبلی کو بھیجتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس سال بجٹ پیش کرنے میں کیا واقعی تاخیر ہو رہی ہے اور اس کی ممکنہ وجوہات کیا ہو سکتی ہیں؟
انڈپینڈنٹ اردو نے ان سوالات کے جوابات جاننے کے لیے حکومتی عہدے داروں اور مبصرین سے رابطہ کیا۔
وزیر مملکت برائے خزانہ علی پرویز ملک نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’وزیر اعظم کے دورہ چین کے بعد نیشنل اکنامک کونسل کا اجلاس بلایا جائے گا جس کے بعد وفاقی بجٹ کی جانب جائیں گے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’بجٹ 10 سے 12 جون کے درمیان پیش کیا جائے گا۔‘
انہوں نے بتایا کہ معاشی استحکام کو بہتر کرنے کے لیے آئی ایم ایف کے فریم ورک میں رہتے ہوئے ان کی مشاورت کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔
’ہمیں معلوم ہے کہ بیرونی و اندرونی خسارہ اور توانائی کے شعبہ میں خسارہ ریکارڈ پر ہے۔ وزیر اعظم کی جانب سے ٹیکس نان فائلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی ہدایت دی گئی ہے۔‘
قائمہ کمیٹیوں کی تشکیل سے متعلق سوال پر علی پرویز ملک نے کہا قومی اسمبلی میں نشستیں نامکمل ہونے کی وجہ سے سپیکر کو مسئلہ درپیش ہے کہ وہ اراکین اسمبلی کو کس طرح سے کمیٹیوں میں تقسیم کریں گے؟ کیوں کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر غور ہے، جیسے ہی وہاں حل ہوگا اس کے بعد جلد از جلد یہ کمیٹیاں قائم کر لی جائیں گی۔
اس سے قبل وزیر مملکت برائے خزانہ نے ایک بیان میں کہا کہ بجٹ میں بجلی کے 200 یونٹ استعمال کرنے والے صارفین کو بچانا چاہتے ہیں۔
’بجٹ میں پینشن کو بچانے کے لیے وزیراعظم نے وزیر خزانہ کو آئی ایم ایف سے خصوصی بات چیت کی ہدایت کی ہے۔ وزیر اعظم تنخواہ دار طبقے پر دباؤ کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
دوسری جانب وزیر اعظم شہباز شریف پانچ روزہ دورے پر گذشتہ روز چین پہنچے ہیں۔
وزیر اعظم کی جانب سے جاری کیے گئے بیان کے مطابق شہباز شریف کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے دوسرے مرحلے میں دونوں ممالک کی کمپنیوں کے اشتراک اور سرمایہ کاری سے ملکی برآمدات میں اضافے کے لیے کوشش کر رہی ہے۔
وزیر اعظم دورے کے دوران پاک چین بزنس فورم میں شرکت کریں گے۔
وزیر اعظم شہباز شریف کا یہ دورہ آٹھ جون کو مکمل ہو رہا ہے۔
معیشت کور کرنے والے صحافی شعیب نظامی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ملک کو اگلے مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں 15 ارب ڈالر واپس کرنا ہیں جس میں بیشتر رقم چینی بانڈ و قرضہ اور چینی آئی پی پیز کے 370 ارب روپے ہیں۔
’ایسے وقت میں جب بجٹ کی بڑی رقم واپس کی جانی ہے، اگر حکومت اسے رول اوور کروانے میں کامیاب ہوگی تو بجٹ کے مستحکم اعداد و شمار بنائے جا سکتے ہیں۔ اور اس کی بنیاد پر آئی ایم ایف سے مذاکرات کیے جا سکتے ہیں۔‘
شعیب نظامی نے بتایا ’رول اوور نہ ملنے یا یقین دہانی نہ ملنے کی صورت میں بجٹ اور قرضوں کا حجم مختلف ہوگا۔ ایسی صورت حال میں آئی ایم ایف کے ساتھ دیگر ذرائع سے قرضہ حاصل کرنا پڑیں گے۔ چین کے قرضوں میں رول اوور ملنے کے بعد ہم اپنا بجٹ بنا سکیں گے۔‘