لنڈی کوتل کا آبشار جس کی ٹھنڈک کے سبب اس کا نام ’اے سی گٹ‘ پڑا

لنڈی کوتل میں جہاں گرمی عروج پر ہوتی ہے تو لوڈشیڈنگ کے ستائے ہوئے مکین اپنے بچوں کے ہمراہ اے سی گٹ آبشار کا رخ کرتے ہیں۔

ضلع خیبر کی تحصیل لنڈی کوتل میں مرکزی بازار سے دو کلو میٹر کے فاصلے پر واقع چار باغ میں پہاڑوں کے بیچ ایک خوبصورت آبشار ’اے سی گٹ‘ ہے جسے دیکھنے ملک بھر سے لوگ آتے ہیں۔

گٹ پشتو زبان کا لفظ ہے جو بڑے پتھر کو کہا جاتا ہے۔ دو چٹانوں کے بیچ لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے بڑا پتھر پھنس گیا تھا جس پر چشمے سے پانی آکر گرتا ہے۔

تنگ وادی میں گرتے پانی کی ٹھنڈک کی وجہ سے اسے ’اے سی گٹ‘ کا نام دیا گیا ہے۔

لنڈی کوتل میں جہاں گرمی عروج پر ہوتی ہے تو لوڈشیڈنگ کے ستائے ہوئے مکین اپنے بچوں کے ہمراہ اے سی گٹ آبشار کا رخ کرتے ہیں۔

گوجرانوالہ سے  تعلق رکھنے والے طارق نامی سیاح نے بتایا کہ وہ گجرانوالہ سے اپنے دوستوں کے ساتھ پشاور آئے تھے جو انہیں اے سی گٹ لے آئے۔

طارق نے بتایا کہ انہیں دھوپ میں کھڑے ہو کر بھی یہاں سردی کا احساس ہو رہا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

طارق نے بتایا کہ ’پہاڑوں سے گرتا آبشار تو واقعی قابل دید ہے لیکن یہاں پر حکومت کی عدم دلچسپی کے باعث سیاحوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ یہاں پر سیاحوں کے لیے کوئی سایہ دار جگہ یا کھانے کے لیے کوئی انتظام موجود نہیں، نہ کینٹین ہے اور نہ پکانے کے لیے سہولت موجود ہے۔‘

طارق نے بتایا کہ ’یہاں سیاح اپنے ساتھ کھانا لاتے ہیں، اگر حکومت یہاں دلچسپی لے تو نہ صرف سیاحوں کے لیے سہولیات میسر آئیں گی بلکہ مقامی آبادی کو ذریعہ معاش بھی مہیا ہو جائے گا۔‘

لنڈی کوتل سے تعلق رکھنے والے مقامی صحافی اور مصنف راحت شینواری نے انڈیپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ’یہ بڑا پتھر شمشاد کے پہاڑوں سے لینڈ سلائڈنگ کی وجہ سے یہاں آکر ان دو چٹانوں میں پھنس چکا ہے، اوپر قدرتی چشمہ ہے جس سے بارش ہونے کے بعد بڑے پیمانے پر پانی بہنا شروع ہو جاتا ہے، اسی چشمے کا پانی ان بڑے پتھر پر آکر گرتا ہے جو نہایت ٹھنڈا ہو جاتا ہے اس لیے ان کا نام بھی اے سی گٹ پڑ گیا ہے۔‘

راحت شینواری کہتے ہیں کہ ’یہ آبشار اے سی کا درجہ حرارت رکھتا ہے لنڈی کوتل میں جہاں درجہ حرارت 37 سے 38 ڈگری سے تجاوز کر چکا ہو تو یہاں 22، 23 اور 24 ڈگری کے درمیان ہوتا ہے اس لیے مقامی لوگوں کے علاوہ پشاور چارسدہ، مردان صوابی اور ملک کے دیگر شہروں سے سیاح آکر انجوائے کرتے ہیں۔‘

راحت شینواری کہتے ہیں کہ لنڈی کوتل میں کئی آبشاروں پر چھوٹے ڈیمز بنائے جا سکتے ہیں جس کی وجہ سے چھوٹے پیمانے پر بجلی کے منصوبے ماہی پروری اور سیاحتی مقامات دریافت ہو سکتے ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے بلکہ یہاں کے مقامی غریب طبقے کو روزگار کے مواقع اور سہولیات بھی میسر ہو سکتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات