نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف اپیلوں کا فیصلہ محفوظ

سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف حکومتی اپیلوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا بانی پی ٹی آئی عمران خان سے مکالمہ ہوا ہے۔

عمران خان کی یہ فائل فوٹو 18 مئی 2023 کو لاہور میں ان کی رہائش گاہ میں میڈیا نمائندوں سے گفتگو کے دوران لی گئی تھی (فائل فوٹو/ اے ایف پی)

سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف حکومتی اپیلوں پر سماعت مکمل کرتے ہوئے جمعرات کو کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف حکومتی اپیلوں پر سماعت کی۔

سماعت کے دوران  چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا بانی پی ٹی آئی عمران خان سے مکالمہ ہوا جس کے دوران عمران خان  سے کہا کہ وہ کیس سے متعلق جو کہنا چاہتے ہیں وہ بتائیں جس پر سابق وزیر اعظم نے کہا کہ وہ ’وضاحت کرنا چاہتے ہیں کہ گذشتہ سماعت پر کون سی سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی، آپ نے گذشتہ حکم نامے میں لکھا کہ میں نے سیاسی باتیں کیں۔‘

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ ’آپ کیس سے متعلق بات کریں باقی باتیں چھوڑیں، جس پر عمران خان نے کہا ’میں ایسا کون سا خطرناک آدمی ہوں کہ غلط بات کر دوں گا، مجھے مشکوک کردار کیوں سمجھا جا رہا ہے۔‘

بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا کہ ’پہلے لائیو کیس چل رہا تھا، میں آیا تو بند کر دیا گیا۔‘ جس پر چیف جسٹس نے کہا: ’ججز اپنے فیصلوں کی وضاحت نہیں کرتے۔‘

عمران خان نے مزید کہا کہ وہ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں۔ جسٹس امین الدین خان نے ان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا ’آپ کو پہلے بہت ریلیف مل چکا ہے، نیب ترامیم سے متعلق کیس کی حد تک بات کریں۔‘

سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ وہ نیب ترامیم کیس میں حکومتی اپیل کی مخالفت کرتے ہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے انہیں ’کیس پر رہنے‘ کی ہدایت دی۔

عمران خان نے کہا کہ نیب ترامیم صرف چند شخصیات کے لیے کی گئیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’خان صاحب ان ترامیم کو کالعدم کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی، آپ نے شاید میرا نیب سے متعلق نوٹ نہیں پڑھا، آپ کے بیان کے بعد کیا باقی رہ گیا ہے۔ آپ کا نیب پر کیا اعتبار رہے گا؟‘

عمران خان نے کہا: ’میرے ساتھ پانچ روز کے اندر فیصلے دے کر نیب نے جو کیا اس کے بعد کیا اعتبار ہوگا۔ میں اس وقت نیب کو بھگت رہا ہوں۔‘

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ انڈیا میں کیجریوال کی سزا کو معطل کر کے رہا کیا گیا اور انہیں الیکشن لڑنے دیا گیا۔

’جبکہ مجھے پانچ روز میں ہی سزائیں دے کر انتخابات سے باہر کر دیا گیا۔ میں دل سے بات کروں تو ہم سب آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں، پاکستان میں غیر اعلانیہ مارشل لا لگا ہوا ہے۔‘

جسٹس جمال مندوخیل نے جواب میں کہا ’ہم آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں اور آپ ہماری طرف دیکھ رہے ہیں۔‘

اس دوران عمران خان نے سائفر کیس کا حوالہ دینا چاہا تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے انہیں روکتے ہوئے کہا اس کیس میں شاید اپیل ان کے سامنے آئے۔

سماعت میں عمران خان نے کہا ’جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ترامیم کالعدم ہوئیں تو میرا نقصان ہوگا۔ مجھے 14 سال کی قید ہو گئی کیونکہ میں نے توشہ خانہ تحفے کی قیمت کم لگائی۔ میری پونے دو کروڑ روپے کی گھڑی تین ارب روپے میں دکھائی گئی، میں کہتا ہوں نیب کا چیئرمین سپریم کورٹ تعینات کرے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’حکومت اور اپوزیشن میں چیئرمین نیب پر اتفاق نہیں ہوتا تو تھرڈ امپائر تعینات کرتا ہے۔

’نیب اس کے بعد تھرڈ امپائر کے ماتحت ہی رہتا ہے۔ نیب ہمارے دور میں بھی ہمارے ماتحت نہیں تھا۔‘

جسٹس جمال مندوخیل نے ان سے استفسار کیا ’آپ کیا کہتے ہیں پارلیمنٹ ترمیم کر سکتی ہے یا نہیں؟ تو عمران خان نے جواب دیا ’فارم 47 والے ترمیم نہیں کر سکتے۔‘ جس پر جسٹس مندوخیل نے کہا کہ وہ دوبارہ زیر التوا کیسز کی جانب جا رہے ہیں۔‘

عمران خان کے جیل سیل کی تصاویر پہلی بار عدالت میں پیش

حکومت کی جانب سے ڈپٹی اٹارنی جنرل کے ذریعے سابق وزیر اعظم عمران خان کو جیل میں دی جانے والی سہولیات اور ملاقاتوں سے متعلق رپورٹ جمعرات کو سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی ہے جس میں انہیں دی جانے والی سہولیات کی تصاویر بھی شامل ہیں۔ 

اٹارنی جنرل آف پاکستان عثمان منصور اعوان کی جانب سے انڈپینڈنٹ اردو کو فراہم کی گئی دستاویزات میں تصاویر کے ساتھ ساتھ کیپشن کے ذریعے تفصیلات بتائی گئی ہیں۔ 

رپورٹ کے مطابق عمران خان کو جیل میں ٹی وی، روم کولر، سٹڈی ٹیبل، کرسی، ورزشی بائیک، سٹریچنگ بیلٹ، بک شیلف، کتابیں اور دن میں دو مرتبہ چہل قدمی کے لیے الگ جگہ فراہم کی گئی ہے۔ جبکہ الگ کچن کی سہولت بھی موجود ہے۔

رپورٹ کے مطابق عمران خان کے لیے کھانا ان کی پسند کے مطابق بنایا جاتا ہے۔ 

رپورٹ میں عمران خان سے ستمبر 2023 سے 26 مئی 2024 تک ملاقاتیں کرنے والوں کے نام شامل ہیں۔

’صرف سیاست دانوں کو نیب کے دائرہ اختیار میں کیوں رکھا گیا‘

عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا نیب ترامیم اس لیے کی گئیں کیونکہ مخصوص سیاسی رہنما اس وقت سلاخوں کے پیچھے تھے۔

چیف جسٹس نے اس پر ریمارکس دیے: ’صرف سیاست دانوں کو نیب کے دائرہ اختیار میں کیوں رکھا گیا، یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔‘

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ ’ٹیلی وژن (ٹی وی) پر ججز کے خلاف بہت باتیں کی جاتی ہیں، ہم ججز اس تنقید کا جواب نہیں دے سکتے۔‘ 

گذشتہ سماعت میں عمران خان نے ان کے وکلا تک رسائی نہ دیے جانے سے متعلق بیان دیا تھا۔ 

سماعت کے دوران وفاقی حکومت نے ان کے اس بیان کی تردید کرتے ہوئے اضافی دستاویزات سپریم کورٹ میں جمع کروائے۔

ان کے ہمراہ سابق وزیر اعظم کے ساتھ اہل خانہ اور قانونی ٹیم کی ملاقاتوں کی فہرست بھی جمع کروائی گئی۔ 

وفاقی حکومت نے جواب میں لکھا ہے کہ ’عمران خان کا قید تنہائی میں ہونے کا موقف بھی غلط ہے، انہوں نے سپریم کورٹ میں وکلا تک رسائی نہ دینے کا موقف اپنایا، عدالت مناسب سمجھے تو ان کے بیان اور حقیقت کو جانچنے کے لیے کمیشن بھی مقرر کر سکتی ہے۔ انہیں جیل میں ٹی وی، کتابیں، ایئر کولر سمیت تمام ضروری سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔‘

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’شعیب شاہین ٹی وی پر تو بات کرتے ہیں یہاں آ کر ہمیں بھی جواب دیں ناں۔ مرکزی کیس میں سپریم کورٹ نے 53 سماعتیں کیں مگر شعیب شاہین ایک دن نہیں آئے، ٹی وی کیمرہ یہاں لگا دیں تو لمبی لمبی تنقید کریں گے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چیف جسٹس نے کہا کہ ’پریکٹس اینڈ پروسیجر کے بعد نیب ترامیم پر بینچ کیسے بنا اس کی وجہ بتائیں،‘ تو خواجہ حارث نے جواب دیا جسٹس منصور علی شاہ کے نوٹ میں یہ نقطہ طے ہو چکا اور پریکٹس اینڈ پروسیجر کا بینچ اس فیصلے کا حصہ بن چکا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا: ’پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کو کیوں نہیں چلایا گیا؟ نیب ترامیم کیس چلتا رہا۔ ہائی کورٹ میں زیر التوا درخواست کو واپس لگانے کی کوشش کیوں نہیں ہوئی؟ باہر کیمرے پر جا کر گالیاں دیں گے یہاں آکر ہمارے سامنے تنقید کریں۔‘

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ’پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ معطل کرنے کے بعد اس ایکٹ کا کیس کیوں نہیں سنا گیا؟ نیب ترامیم والا کیس چلانے میں ہی جلدی کیوں کی گئی؟ شاید انہی حربوں کی وجہ سے ہماری عدلیہ کی رینکنگ نیچے ہے؟ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو تو معطل کر دیا تھا، میری رائے میں قانون معطل نہیں ہو سکتا۔‘

نیب قانون میں ججوں اور جرنیلوں سمیت کچھ افراد کو استثنیٰ دیا گیا: چیف جسٹس

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جمعرات کو نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف حکومتی اپیلوں پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ ’نیب قانون میں ججوں اور جرنیلوں سمیت کچھ افراد کو استثنیٰ دیا گیا، کیا صرف سیاست دانوں کی کرپشن ختم کرنی تھی؟‘

جب سماعت کا آغاز ہوا تو اپیل کنندہ زوہیر احمد صدیقی کے وکیل فاروق نائیک روسٹرم پر آ گئے۔

اس دوران سابق وزیراعظم عمران خان فیروزی رنگ کی شرٹ پہنے ویڈیو لنک کے ذریعے سماعت سن رہے تھے۔

فاروق نائیک نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے تفصیلات تحریری طور پر جمع کروا دی ہیں اور مزید معاونت کے لیے تیار ہیں۔

اس کے بعد عدالتی معاون اور عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل کا آغاز کیا۔

چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ ’کون سا بنیادی حق نیب ترامیم سے متاثر ہوا ہے؟‘

خواجہ حارث نے جواب دیا کہ مرکزی کیس میں نیب ترامیم آئین کے آرٹیکل نو، 14، 24 اور 25 کی خلاف ورزی ہیں۔

چیف جسٹس نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا: ’کیا نیب قانون درست ہے؟‘

وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ چند نیب ترامیم کو چیلنج کیا گیا تھا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نیب قانون کے وجود سے متعلق استفسار کیا تو خواجہ حارث نے بتایا کہ پرویز مشرف کے دور میں سال 1999 میں نیب کا ادارہ قائم کیا گیا تھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’کیا کرپٹ سیاست دانوں کو باہر کرنے کے لیے نیب قانون بنایا گیا؟ نیب قانون میں ججوں اور جرنیلوں سمیت کچھ افراد کو استثنیٰ دیا گیا۔ کیا صرف سیاست دانوں کی کرپشن ختم کرنا تھی؟‘

ساتھ ہی انہوں نے استفسار کیا کہ پاکستان تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں نیب قانون کو کیوں تبدیل نہیں کیا گیا؟

وکیل نے جواب دیا کہ جنرل (ر) مشرف سے پہلے بھی احتساب ایکٹ موجود تھا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ ’صرف منتخب پبلک آفس ہولڈرز پر نیب کا اختیار کیوں رکھا گیا؟ غیر منتخب پبلک آفس ہولڈرز پر کیوں نیب کا اختیار نہیں رکھا گیا؟‘

چیف جسٹس نے وکیل خواجہ حارث سے سوال کیا کہ ’کیا آپ صرف سیاسی احتساب چاہتے ہیں؟‘

انہوں نے جواب دیا: ’ہم نے نیب آرڈیننس 1999 چیلنج نہیں کیا بلکہ نیب ترامیم 2022 چیلنج کی تھیں۔‘

سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے نیب ترامیم کو عمران خان کی درخواست پر کالعدم قرار دیا تھا، جس کے خلاف وفاقی حکومت نے انٹرا کورٹ اپیلیں دائر کی تھیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان