برطانیہ میں مڈلینڈز کے رہائشی ایک والد نے تیسری بار گاڑی کے گھر کے سامنے پرزے چوری ہونے پر کہا: ’یہ ایک بھونڈے مذاق کی طرح تھا۔‘
پہلے دو مواقع پر چوروں نے ان کی ٹویوٹا یارِس کے بونٹ، لائٹس اور آگے کا بمپر اتار لیا تھا، جو برمنگھم کی ہری بھری ہاربورن گلی میں سڑک پر کھڑی تھی۔
50 سال کی عمر کے پیٹے میں اس شخص نے مزید بتایا کہ نام نہاد ’کار کینیبلز‘ کو بتایا کہ بجٹ کاروں کے بیرونی پرزوں کی تلاش میں ہیں۔
لیکن اسی جگہ پر اپنی نئی 23 ہزار پاونڈز کی نیی کیا ’نیرو‘ کو پارک کرنے کے ایک ہفتے کے اندر اسے بھی نشانہ بنایا گیا – حالانکہ اس بار چور ایک پڑوسی کی مداخلت پر فرار ہو گئے۔
انتقامی کارروائی کے خوف سے اپنا نام ظاہر نہیں کرنے والے شخص نے کہا: ’مجھے یقین نہیں آ رہا ہے۔
’ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی مجھے دیکھ رہا ہو۔ اس احساس نے اپنے علاقے میں رہنے کے باوجود مجھے غیر محفوظ بنا دیا اور یہاں تک کہ دوسری گاڑی خریدنے پر بھی سوال لگا دیا۔‘
اب وہ اپنی گاڑی آف روڈ پارک کرنے کے لیے ادائیگی کے علاوہ اپنے انشورنس پریمیم کی صورت میں مزید 12 سو پاونڈ ادائیگی کرتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پچھلے سال بی بی سی نے برمنگھم بھر میں کئی واقعات کی خبر دی تھی جن میں صرف ایک ماہ کے دوران ڈگ بیتھ علاقے میں نو واقعات ہوئے جبکہ دیگر شہر کے مرکز میں واقع ایک کار پارک میں ہوئے۔
اس سال کے شروع میں برمنگھم سٹی فٹ بال کلب نے اپنے فینز متنبہ کیا جب اپنی ٹیم کا میچ دیکھتے ہوئے شائقین کی گاڑیوں کو نشانہ بنایا گیا۔
ان میں کرس پگ بھی شامل تھے، جنہیں ان کے ووکس ہال کورسا کے بمپر اور بونٹ نکالے جانے کے بعد 18 سو پاونڈز (تقریبا چھ لاکھ 45 ہزار پاکستانی روپے) کا بیمے کا اضافی بل آیا تھا۔
ان کی انشورنس کمپنی نے ان کی 13 ہزار پاونڈز کی گاڑی کو رائٹ آف کر دیا، جس کے بعد انہوں نے واکس ہال کراس لینڈ لے لی جس کا انشورنس پریمیم تقریباً تین گنا بڑھ گیا ہے۔
اس 35 سالہ شخص نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’یہ آپ کو شدید متاثر کرتا ہے اور آپ کو لگتا ہے کہ آپ کو ذاتی طور پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہ آپ کو اور آپ کی جیب دونوں کو تکلیف دیتا ہے۔ ہم پھر کبھی شہر کے مرکز میں گاڑی نہیں چھوڑیں گے۔‘
’کار سٹرپنگ‘ کے طور پر جانے والے اس جرم میں شہر کے مراکز، مکانات کے باہر اور یہاں تک کہ ہسپتالوں میں بھی، بعض اوقات دن کی روشنی میں کھڑی کاروں کے بیرونی حصوں کو اتار لیا جاتا ہے۔
اس چوری میں صرف چند منٹ لگتے ہیں، جو اپنا سامان آن لائن بیچتے ہیں یا بیک سٹریٹ گیراجوں میں۔
بیمہ کے ماہرین، بشمول الیانز انشورنس میں یو کے ریٹیل کے مینیجنگ ڈائریکٹر ہنری ٹوپھم نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ان جرائم میں اضافہ گاڑیوں کے پرزوں کی کمی اور زیادہ قیمتوں کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ سال 2022 اور 2023 کے درمیان آگ لگنے اور چوری کے دعووں کی اوسط لاگت 34 فیصد بڑھ گئی۔
روایتی طور پر مکمل گاڑیاں چوری کی جاتی تھیں، ویسٹ مڈلینڈز پولیس کے سپرنٹنڈنٹ جم منرو نے بتایا کہ ’کباڑیے یا چاپ شاپس‘کی بہتر جاسوسی کی وجہ سے مجرم پکڑے جانے کے خطرے کو کم کرنے کے لیے عوامی مقامات پر گاڑیوں کا سامان اتار رہے ہیں۔
ایک افسر نے، جو علاقے میں ایک نئی ٹیم کے حصے کے طور پر گاڑیوں کے جرائم کے خلاف خصوصی آپریشن کی قیادت کرتے ہیں، کہا کہ کووڈ وبائی بیماری اور یوکرین میں جاری جنگ پرزوں کی کمی کے عوامل تھے، جن میں سے بہت سے مشرقی یورپ میں بنائے جاتے تھے۔
سپرنٹنڈنٹ جم منرو نے کہا: ’ہم دیکھتے ہیں کہ ضرورت کے مطابق ہر قسم کی گاڑیاں چوری ہوتی ہیں اور سامان چرا لیا جاتا ہے۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ مجرم ’سمجھ دار‘ ہیں اور ان پرزوں کی مانگ پر نظر رکھنے کے لیے تحقیق کرتے رہتے ہیں۔
یہ فورس نشانہ بنائی جانے والی گاڑیوں کے مالکان میں ان جرائم سے متعلق آگاہی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ برمنگھم میں مقیم مینوفیکچررز سے حفاظتی اقدامات کے بارے میں بات کر رہی ہے۔
جم منرو نے کہا کہ مشتبہ مجرموں کو پکڑنے میں کامیابی ملی ہے۔ اس سال کے شروع میں ایک چاپ شاپ پر ایک چھاپے میں، افسران نے ایک 45 سالہ شخص کو متعدد گاڑیوں سے سامان چرانے کے جرم میں گرفتار کیا۔ اسے ایک موٹر گاڑی سے چوری کے تین الزامات کا سامنا ہے اور اس پر جولائی میں مقدمہ چلنا ہے۔
فورس کا کہنا ہے کہ خطے میں گذشتہ سال کے دوران گاڑیوں کے جرائم کے تقریباً چار ہزار کم واقعات پیش آئے تھے، جو کہ اس سے پچھلے سال کے مقابلے میں 12 فیصد کی کمی ہے۔
لیکن گاڑیوں سے سامان اتارنے کے واقعات کے بارے میں مخصوص ڈیٹا دستیاب نہیں ہے کیونکہ یہ ’گاڑی سے چوری‘ کی کیٹگری میں آتا ہے۔ تازہ ترین قومی جرائم کے سروے کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ایسے پانچ میں سے ایک واقعے میں اب (گاڑی کی) بیرونی فٹنگز چرائی جا رہی ہیں۔
ہوم آفس کے اعداد و شمار کے مطابق اپریل اور دسمبر 2023 کے درمیان انگلینڈ اور ویلز میں موٹر گاڑی سے چوری کے 145,000 واقعات ریکارڈ کیے گئے، جن میں سے صرف 1.2 فیصد ملزمان کو چارج یا سمن کا سامنا کرنا پڑا۔ ویسٹ مڈلینڈز میں یہ شرح قدرے بہتر یعنی 1.8 فیصد تھی۔
سپرنٹنڈنٹ جم منرو نے کہا: ’ہمیں عوام کے علاوہ سی سی ٹی وی اور دروازے کی گھنٹی کے کیمروں کی مدد حاصل ہے - اور ہم ویسٹ مڈلینڈز میں کیا کر رہے ہیں۔ اس قسم کے جرائم کی تحقیقات میں مصروف افسران موجود ہیں جو رجحان کو سمجھتے ہیں، وہ ایسے لوگوں کو جانتے ہیں جنہیں ہم ذمہ دار سمجھتے ہیں... اور ہم ان معلومات کو استعمال کرنے کے قابل ہیں جس سے ہماری پولیسنگ کی سرگرمی کو ہماری کمیونٹیز کی خاطر بہتر سے بہتر جواب دیا جا سکے۔‘
تاہم، ایجبسٹن کے ایم پی پریت گل کہتے ہیں کہ برمنگھم جیسے علاقوں میں پولیس کی مدد کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔
چار جولائی کو ہونے والے انتخابات کے لیے لیبر امیدوار کہتی ہیں کہ ان کی پارٹی کا 13,000 اضافی پولیس اور PCSOs کو بیٹ پر رکھنے کا وعدہ فورسز کو گاڑیوں سے چوری سے نمٹنے میں مدد کرے گا۔
انہوں نے کہا: ’یہ لوگوں کی روزمرہ کی زندگیوں کو متاثر کر رہا ہے اور اس کے ہوتے رہنے پر مایوسی ہے۔‘
نجی کار ڈیلروں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے جہاں تاجر اپنے فورکورٹ پر گاڑیوں کو نقصان پہنچا پاتے ہیں۔
انڈپینڈنٹ موٹر ڈیلرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین امیش سامانی نے کہا کہ انہوں نے سنا ہے کہ چوری شدہ ہیڈلائٹس ای بے جیسی ویب سائٹس پر اڑھائی ہزار پاونڈز تک فروخت کی جا رہی ہیں، جس کا کچھ حصہ بھنگ اگانے کے لیے مختص کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا: ’صورت حال کی حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے زیادہ تر کا جرائم کا ارتکاب منظم جرائم پیشہ افراد کرتے ہیں، گینگ بہت کم وقت میں گاڑیوں کو خاص طور پر جب یہ غیر محفوظ علاقوں میں کھڑی کی جاتی ہیں، کھولنے کا کام انتہائی تیز رفتار سے کرتے ہیں۔‘
آر اے سی کے ترجمان سائمن ولیمز نے کہا: ’یہ افسوسناک ہے کہ 'گاڑیوں کے گدھ' تیزی سے کار پارکوں کو نشانہ بنا رہے ہیں اور قیمتی پرزہ جات گاڑیوں سے چھین کر فوری رقم کے لیے فروخت کر رہے ہیں۔‘
ایسوسی ایشن نے گاڑی چلانے والوں پر زور دیا ہے کہ وہ پارک مارک سکیم کے تحت کار پارکس کا استعمال کریں جو سکیورٹی کے لیے پولیس سے منظور شدہ ہے گاڑیوں کو سی سی ٹی وی کیمروں کی پہنچ میں چھوڑ دیں۔
ہوم آفس نے کہا کہ وہ نیشنل پولیس چیفس کونسل کے ساتھ مل کر جرائم کے خاتمے کے لیے ’بہتر انٹیلی جنس صلاحیت‘ پیش کرنے کے لیے کام کر رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سابق پولیسنگ منسٹر کرس فلپ نے مئی میں ویسٹ مڈلینڈز پولیس سے گاڑیوں کے جرائم پر بات چیت کے لیے ملاقات کی تھی۔
© The Independent