سٹیٹ بینک آف پاکستان نے پیر کو شرح سود میں 1.5 فیصد کمی کا اعلان کیا ہے، جس سے قرضوں پر منافع کی شرح 22 سے کم ہو کر 20.5 فیصد ہو گئی ہے۔
پاکستان کے مرکزی بینک نے چار سال بعد شرح سود میں کمی کا اعلان کیا ہے، جس سے دیکھنا ہو گا کہ ملکی معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
سٹیٹ بینک کے جاری کردہ بیان کے مطابق فروری سے مہنگائی میں کمی ہوئی جب کہ مئی میں مہنگائی میں کمی کے نتائج توقعات سے بہتر رہے۔
بیان میں کہا گیا کہ مانیٹری پالیسی کمیٹی نے اس بات کا اظہار کیا کہ آئندہ بجٹ کے اقدامات اور توانائی کی قیمتوں میں تبدیلی سے مستقبل قریب میں مہنگائی کی شرح میں کچھ اضافہ ہو سکتا ہے۔
ان خدشات اور آج کے فیصلے کے باوجود، گذشتہ مالیاتی سختی کے مجموعی اثر سے مہنگائی پر قابو رکھنے کی توقع ہے۔
شرح سود میں کمی سے ملکی معیشت پر کیا اثر پڑے گا؟
ماہر معاشیات اشفاق تولا کی رائے ہے کہ شرح سود میں کمی سے مہنگائی میں کمی متوقع ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ شرح سود میں اضافہ ہمیشہ مہنگائی میں اضافہ کا باعث بنتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اشفاق تولا نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مونیٹری پالیسی میں نرمی کا کسی حد تک شرح نمو میں فرق پڑے گا، سکڑنے کے بجائے بڑھے گی۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’شرح سود میں کمی سے حکومت کو قرضوں کی واپسی میں بھی ریلیف ملے گا، جو ہمارے اندازے کے مطابق 600 ارب روپے تک ہو گا۔‘
شرح سود میں کمی سے معیشت پر اثرات سے متعلق ماہر معاشیات فرحان بخاری کا کہنا تھا کہ ’بجٹ پیش ہونے کے بعد مستبقل کے بارے میں معلوم ہوگا کیوں کہ سننے میں آ رہا ہے کہ جنرل سیلز ٹیکس، سیلز ٹیکس اور پیٹرول پر بھی ٹیکس لگائے جا رہے ہیں اور اس کے نتیجے میں ملک میں مہنگائی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔‘
ان کا اس حوالے سے مزید کہنا تھا کہ ’سٹیٹ بینک کے مطابق شرح سود میں کمی مہنگائی میں کمی کی وجہ سے ہوا مگر بجٹ میں اگر ٹیکسز لگائے جاتے ہیں اور اس سے مہنگائی میں اضافہ ہوا تو دیکھنا پڑے گا کہ کب تک شرح سود میں کمی کو برقرار رکھا جاتا ہے۔‘
کیا شرح سود میں کمی کا فرق ریئل سٹیٹ سیکٹر پر پڑے گا؟
اشفاق تولا کی رائے میں شرح سود میں کمی کا کوئی فائدہ ریئل سٹیٹ سیکٹر میں شاید دکھائی نہ دے، جس کی وجہ بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ریئل سٹیٹ کے شعبے میں گراوٹ کی وجہ زمین کی قیمتوں کے تعین کا مسئلہ ہے اور دوسرا قوت خرید میں کمی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ سرمایہ کار زمین نہیں خرید رہے کیوں کہ آگے خریدار نہیں ہیں اور شاید اسی لیے شرح سود میں کمی کا فرق اس سیکٹر پر نظر نہ آئے۔
فرحان بخاری کی اس پر رائے تھی کہ شرح سود کی (20.5 فیصد) اب بھی بہت بھاری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کچھ لوگ کہیں گے اس سے فرق پڑے گا مگر میری رائے میں 1.5 فیصد کمی سے ریئل سٹیٹ سیکٹر پر فرق نہیں پڑے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’آگے چل کر اگر مزید کمی ہوئی تو پھر اس سیکٹر میں بہتری ہو سکتی ہے۔‘
فرحان بخاری نے بتایا کہ بجٹ میں ڈاکومینٹیشین زیادہ ہو گی اور دیکھنا ہوگا کہ سرمایہ کاری بھی موجودہ رفتار سے ہو گی یا نہیں۔
آٹو موبائل انڈسٹری پر کیا فرق پڑے گا؟
پاکستان آٹو موٹیو مینوفیکچرنگ ایسوسی ایشن کی جانب سے دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق 2023 میں گاڑیوں کی فروخت میں 68 فیصد کمی واقع ہوئی۔
سٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق کار فنانسنگ میں مسلسل کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
سٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق کار فنانسنگ دسمبر 2023 میں 246 ارب روپے تک پہنچ گئی جو جنوری میں 251 ارب روپے تھی۔
اشفاق تولا کا کہنا تھا کہ عوام کی قوت خرید بہت کم ہو چکی ہے اور سب سے زیادہ گاڑیوں کی فروخت میں کردار لیزنگ کا تھا، شرح سود 15 سے 16 فیصد کے ساتھ۔
ان کی رائے میں موجودہ مہنگائی میں 26 سے 28 فیصد کی شرح سود سے کوئی بھی فنانسنگ کے لیے تیار نہیں ہے۔
شرح سود میں کمی سے آٹو موبائل انڈسٹری پر اثرات سے متعلق فرحان بخاری کی رائے تھی کہ ایسا ممکن نہیں کہ 20.5 فیصد کے شرح سود پر لوگ بھاگتے جائیں گے اور کار فنانسنگ کروائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں آٹو موبائل انڈسٹری میں بہتری کار لیزنگ کی وجہ سے تھی مگر اس وقت فوری طور پر بہتری ہوتی دیکھائی نہیں دے رہی۔
اشفاق تولا اور فرحان بخاری دونوں کی رائے تھی کہ شرح سود میں ایک سے دو فیصد کے درمیان ہی کمی کا اندازہ لگایا جا رہا تھا۔