ریئل سٹیٹ اور آٹو موبائل انڈسٹری میں گذشتہ چند برسوں کے دوران گراوٹ دیکھنے میں آئی ہے مگر دیکھنا یہ ہے کیا وفاقی حکومت کے آئندہ مالی سال 2024-25 کے بجٹ میں ان دونوں شعبوں کی بحالی کے لیے کوئی اقدامات کیے جائیں گے؟
بجٹ 2024 کے حوالے سے ماہر معاشیات عابد سلہری اور صحافی مہتاب حیدر کے ساتھ انڈپینڈنٹ اردو کی خصوصی نشست کے دوسرے حصے میں ان شعبوں میں گراواٹ اور اس کی بحالی کے حوالے گفتگو کی گئی۔
سینیئر صحافی مہتاب حیدر نے بتایا کہ پراپرٹی کی قیمت کے تعین کا طریقہ تبدیل کیا جا رہا ہے۔
مہتاب حیدر کا کہنا تھا کہ ’فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے پراپرٹی کے نرخوں کو تبدیل کرنے پر کام جاری ہے جو کہ جولائی 2024 کے بعد کسی بھی وقت لاگو ہو جائیں گے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ کیپیٹل گینز ٹیکس جو مخصوص مدت کے لیے ہے مگر عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی جانب سے تجویز دی گئی ہے کہ کوئی بھی شخص پراپرٹی سے منافع حاصل کرتا ہے اس پر ٹیکس لگایا جائے۔‘
مہتاب حیدر کا کہنا تھا کہ ’پراپرٹی کی فائلوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے تجویز کے پراجیکٹس کو چلانے والوں کو ود ہولڈنگ ایجنٹ قرار دیا جائے اور وہ جتنی فائلز فروخت کریں اس پر ٹیکس وصول کیا جائے۔‘
پاکستان آٹو موٹیو مینو فیکچز ایوسی ایشن کی جانب سے دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق سال 2023 میں گاڑیوں کی فروخت میں 68 فیصد کمی ہوئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق کار فنناسنگ میں مسلسل کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
سٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق کار فنناسنگ دسمبر 2023 میں 246 ارب روپے تک پہنچ گئی جو جنوری کے مہینے میں 251 ارب روپے تھی۔
ماہر معاشیات عابد سلہری کی رائے ہے کہ آٹو موبائل انڈسٹری میں گراوٹ فی الحال برقرار رہے گی۔
عابد سلہری کا کہنا تھا کہ ’گاڑیوں پر رجسٹریشن اور دیگر ٹیکسز کو بڑھتے ہوئے دیکھ رہا ہوں اور دو ہزار سی سی سے اوپر کی گاڑیاں لینا مشکل ہو جائے گا۔‘
اس شعبے میں گراوٹ کے حوالے مہتاب حیدر کی رائے ہے کہ ملک میں اس شعبے میں مقابلے کی فضا قائم کرنے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ڈالر کو بنیاد بنا کر گاڑیوں کی درآمدات پر پابندی عائد کی گئی ہے اور جب تک باہر سے گاڑیاں نہیں آئیں گی اور ملک میں گاڑیوں کے شعبے میں مقابلے کی فضا قائم نہیں ہو گی تو مسائل رہیں گے۔‘
سیاسی استحکام کا معاشی استحکام میں کردار
اپریل 2022 میں سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی حکومت بنی اور اس کے بعد صوبائی اسمبلیوں اور جنرل الیکشن میں طول دیکھنے میں آیا۔
نو مئی کے واقعات نے بھی پاکستانی سیاست میں مزید ہلچل مچائی اور پھر عمران خان سمیت کئی رہنماوں کی گرفتاریاں ہوئیں۔
الیکشن ہونے کے باوجود حزب اختلاف کے تحفظات موجود ہیں اور تا حال پاکستان تحریک انصاف حکومت کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں دیکھائی دے رہی ایسے میں ملکی سیاسی حالات اطمینان بخش نہیں لگ رہے۔
اس حوالے سے عابد سلہری کی رائے کہ سیاسی عدم استحکام معاشی عدم استحکام کی مؤجب بنتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ایسے حالات میں ہمارے دوست ممالک، غیر ملکی سرمایہ کار بلکہ ملکی سرمایہ کار اس بات کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اور کیا پالیسی بنے گی تا کہ وہ اپنے فیصلے کر سکیں۔‘
ماہر امور معیشت کا کہنا تھا کہ گذشتہ دو سالوں ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار رہا جس سے خمیازہ معیشت کو بھی بھگتنا پڑا۔