سلامتی کونسل میں غزہ میں فائر بندی کی امریکی قرارداد منظور

قرارداد کے حق میں 14 ووٹ پڑے، جس میں کہا گیا کہ اسرائیل نے فائر بندی کے منصوبے کو قبول کر لیا ہے اور ’حماس سے بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ بھی اسے قبول کرے۔‘

اقوام متحدہ میں برطانیہ کی مستقل مندوب باربرا ووڈورڈ اور اقوام متحدہ میں امریکہ کی نمائندہ سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ 10 جون 2024 کو نیویارک میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس کے دوران غزہ میں فائربندی سے متعلق امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد پر ووٹنگ کے دوران (مائیکل ایم سینٹیاگو/ اے ایف پی)

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے پیر کو غزہ میں فائربندی کے منصوبے کی حمایت پر مشتمل امریکی قرارداد منظور کرلی۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق قرارداد کے حق میں 14 ووٹ پڑے جبکہ اپنا ووٹ نہ ڈالنے والے روس نے امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے اعلان کردہ فائر بندی اور قیدیوں کی رہائی کی اس تجویز کا ’خیرمقدم‘ کیا اور فریقین پر زور دیا کہ وہ بلا کسی تاخیر اور بغیر کسی شرط کے اس پر مکمل عمل درآمد کریں۔

قرارداد میں کہا گیا کہ اسرائیل نے فائر بندی کے منصوبے کو قبول کر لیا ہے اور ’حماس سے بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ بھی اسے قبول کرے۔‘

حماس نے بھی پیر کو کہا کہ وہ ووٹنگ کا ’خیرمقدم‘ کرتی ہے۔

اسرائیل کے کٹر اتحادی امریکہ کو غزہ میں فائر بندی کا مطالبہ کرنے والی اقوام متحدہ کی متعدد مجوزہ قراردادوں کو روکنے پر ماضی میں کافی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

لیکن بائیڈن نے فائر بندی اور قیدیوں کی رہائی کے لیے گذشتہ ماہ کے آخر میں نئی امریکی کوشش شروع کی تھی۔

امریکی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے اقوام متحدہ کے اجلاس کے بعد کہا: ’آج ہم نے امن کے لیے ووٹ دیا ہے۔ آج اس کونسل نے حماس کو ایک واضح پیغام بھیجا ہے کہ فائر بندی کے موجودہ معاہدے کو قبول کریں۔ اسرائیل پہلے ہی اس معاہدے پر رضامند ہو چکا ہے اور اگر حماس بھی ایسا ہی کرے تو لڑائی آج ہی رک سکتی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم یہ معاہدہ غیر یقینی ہے کیونکہ حماس کے عہدیداروں کا اصرار ہے کہ فائر بندی کے کسی بھی معاہدے میں جنگ کے مستقل خاتمے کی ضمانت دی جانی چاہیے، تاہم اس مطالبے کو اسرائیل نے سختی سے مسترد کرتے ہوئے حماس کو تباہ کرنے اور باقی قیدیوں کو رہا کرنے کا عہد کیا ہے۔

اس تجویز کے تحت اسرائیل غزہ کے آبادی والے علاقوں سے نکل جائے گا اور حماس قیدیوں کو رہا کرے گی۔ یہ فائر بندی ابتدائی چھ ہفتوں تک جاری رہے گی اور اگر مذاکرات تنازعے کے مستقل خاتمے کے خواہاں ہوئے تو اس میں توسیع اس لیے کی جائے گی۔

اقوام متحدہ میں الجزائر کے سفیر امر بینجامہ نے کہا کہ ’یہ متن مکمل نہیں ہے، لیکن اس سے فلسطینیوں کو امید کی ایک کرن نظر آتی ہے کیونکہ اس کا متبادل قتل و غارت گری اور مصائب ہیں۔

ووٹنگ کے بعد اسرائیلی سفارت کار ریوت شپئر بن نفتالی نے اس بات پر زور دیا کہ ’جنگ اسی وقت ختم ہوگی‘ جب اسرائیلی ’اہداف پورے ہوں گے‘، جن میں قیدیوں کی رہائی اور حماس کی تباہی شامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’سفارت کاری کے ذریعے قیدیوں کی رہائی سے حماس کے انکار نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ہمارے قیدیوں کو واپس لانے کی کوششوں میں فوجی ذرائع بھی شامل ہونے چاہییں۔‘

دریں اثناء اقوام متحدہ میں فلسطینی مندوب ریاض منصور نے کونسل کے ووٹ کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ قرارداد اور فائر بندی پر عمل درآمد کا ’بوجھ اسرائیل پر‘ ہے۔

فلسطینی صدر محمود عباس نے مزید کہا کہ وہ اس قرارداد کی منظوری کو ’غزہ کی پٹی میں اپنے لوگوں کے خلاف نسل کشی کی جنگ کے خاتمے کے لیے درست سمت میں ایک قدم سمجھتے ہیں۔‘

سات اکتوبر کو فلسطینی گروپ کی جانب سے اسرائیل کے خلاف حملے اور اس کے بعد اسرائیل کے جوابی حملے کے بعد سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل موثر کارروائی کی کوشش کرتی رہی ہے۔

انسانی امداد سے متعلق دو قراردادوں کے بعد، سلامتی کونسل نے بالآخر مارچ کے آخر میں ماہ رمضان کے لیے ’فوری فائر بندی‘ کا مطالبہ کیا، جس میں امریکہ ووٹنگ سے غیر حاضر رہا تھا۔

اسرائیلی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جنوبی اسرائیل پر سات اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے میں 1194 افراد مارے گئے تھے، جس کے بعد غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی جارحیت میں کم از کم 37,124 افراد جان سے گئے، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔

فائر بندی کے پہلے مرحلے میں ’فوری اور مکمل فائر بندی‘، اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی قیدیوں کے بدلے حماس کے پاس موجود قیدیوں کی رہائی اور ’غزہ کے آبادی والے علاقوں سے اسرائیلی افواج کا انخلا‘ شامل ہے۔

اس سے ’بڑے پیمانے پر غزہ کی پٹی میں اور ان تمام فلسطینیوں تک انسانی امداد کی محفوظ اور موثر تقسیم ہو سکے گی، جنہیں اس کی ضرورت ہے۔‘

اقوام متحدہ میں روس کے سفیر واسیلی نیبنزیا نے جواب دیا کہ کونسل ’تفصیلات‘ کے بغیر اور ’ مکمل اختیار‘ کے منصوبے پر دستخط کر رہی ہے۔

آٹھ ماہ سے جاری تنازعے کو روکنے کی تازہ ترین کوشش میں امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے پیر کو اسرائیل میں اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو کے ساتھ بات چیت بھی کی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا