پاکستان کی سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف صدارتی ریفرنس خارج کرنے سے متعلق درخواستوں میں صدر مملکت اور وزیر اعظم کو نوٹسز جاری کر دئیے ہیں۔
آئینی درخواستوں کی سماعت سپریم کورٹ کے فل بنچ نے کی جس کی صدارت جسٹس عمر عطا بندیال کر رہے تھے۔
سپریم جوڈیشل کونسل جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس کے کے آغا کے خلاف دائر صدارتی ریفرنس سن رہی ہے۔
ریفرنسز صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے دائر کیے تھے۔ جن میں ان پر بیرون ملک جائدادیں پوشیدہ رکھنے کے الزامات ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جسٹس فائز عیسی اور مختلف بار ایسوسی ایشنز کے اہلکاروں نے دونوں ریفرنسز پر کاروائی روکنے کے لیے سپریم کورٹ میں آئینی درخواستیں دائر کی ہوئی ہیں۔
سپریم کورٹ کے سربراہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے 20 ستمبر کو آئینی درخواستوں کی سماعت کے لیے نو رکنی فل بنچ تشکیل دیا تھا۔
منگل کے روز عدالت عالیہ کی کاروائی شروع ہوئی۔ تو جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ انہیں جسٹس فائز کے وکیل منیر اے ملک کی بیماری کا علم ہے۔
انہوں نے کہا کہ بنچ کے ایک معزز رکن جج بھی موجود نہیں ہیں۔
تاہم عدالت نے صدر عارف علوی، وزیر اعظم عمران خان، اور وفاقی وزیر فروغ نسیم کو نوٹسز جاری کر دئیے۔
سپریم جوڈیشل کونسل کے علاوہ اٹارنی جنرل آف پاکستان اور سیکریٹری قانون کو بھی آئینی درخواستوں میں نوٹسز جاری کیے گئے۔
تاہم نوٹسز جاری کرنے سے پہلے جسٹس بندیال نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان کو اٹارنی جنرل سے معلوم کرنے کو کہا کہ کیا صدر اور وزیر اعظم کو عدالت میں طلب کیا جا سکتا ہے۔
عامر رحمان نے کہا کہ اٹارنی جنرل خود اس مقدمے میں پارٹی ہیں۔ جس پر جج صاحبان صرف مسکرا دیے۔
یاد رہے کہ آئین کے آرٹیکل 248 کے تحت صدر اور وزیر اعظم کو عدالت میں پیش ہونے سے استثنی حاصل ہے۔
جسٹس بندیال نے کہا کہ وہ تمام درخواست گزاروں کو سنیں گے۔
جسٹس فائز عیسی کے وکیل اور سابق اٹارنی جنرل آف پاکستان منیر اے ملک کو 17 ستمبر کو دل کا دورہ پڑا تھا۔ جس کے باعث وہ عدالت میں موجود نہیں تھے۔
جسٹس بندیال نے کہا کہ جسٹس فائز ان کے بھائی جج ہیں۔ اور ان کے خلاف ریفرنس کا دائر ہونا بار اور بنچ دونوں کے لیے اضطراب کا باعث ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان درخواستوں کو جلد از جلد نمٹایا جائے گا۔
جسٹس بندیال نے مزید کہا ’جسٹس فائز سمیت تمام درخواست گزار سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس چوہدری افتخار کی رٹ میں بیان کیے گئے اصولوں پر انحصار کر رہے ہیں۔
جبکہ آئین کے آرٹیکل 211 کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے کہا ’اس مقدمے کے فیصلے کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔‘
تاہم انہوں نے کہا کہ موجودہ فل بنچ اپنی سوچ کا استعمال کرتے ہوئے جسٹس فائز کی اور دوسری درخواستوں سے متعلق فیصلہ دیں گے۔
کیا صدر وزیر اعظم پیش ہوں گے؟
سپریم کورٹ کے وکیل محمد صہیب نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پاکستان کے آئین کے تحت صدر مملکت اور وزیر اعظم کو کسی میں عدالت میں پیش ہونے سے استثنی حاصل ہے۔
اس لیے سپریم کورٹ کے ان نوٹسز کے نتیجے میں بھی وہ عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوں گے۔
تاہم صہیب نے وضاحت کی کہ عدالت کے سامنے صدر اور وزیر اعظم کی نمائندگی اٹارنی جنرل آف پاکستان کرتے ہیں۔
جبکہ صدر اور وزیر اعظم اپنے لیے وکلا کی خدمات بھی حاصل کر سکتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کیوں کہ دو جج صاحبان کے خلاف ریفرنسز کے دائر کرنے میں صدر اور وزیر اعظم کا کردار شامل ہے اسی لیے ان کو بھی نوٹسز جاری کیے گئے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں صہیب نے کہا کہ صدر اور وزیر اعظم کو اس صورت میں عدالت کے سامنے پیش ہونا ہوتا ہے اگر بنچ نوٹس میں خصوصا ایسی ہدایت کا ذکر کرے۔
انہوں نے کہا کہ چونکہ موجودہ نوٹس ایسا مخصوص نوٹس نہیں ہے اس لیے صدر اور وزیر اعظم اٹارنی جنرل کے ذریعے ہی اپنے کمنٹس عدالت بھیجیں گے۔