سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس پر اپیل کی عدالت عظمیٰ میں سماعت کے دوران ان کے وکیل کی جانب سے لارجر بینچ کے کچھ ارکان پر اعتراض کے بعد بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے نئے بینچ کی تشکیل کے لیے کیس چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کو بھیج دیا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس پر سپریم کورٹ میں دائر پٹیشن کی سماعت آج سات رکنی لارجر بینچ نے کی۔ سماعت کا آغاز صبح 9:35 پر سپریم کورٹ کے کمرہ عدالت نمبر چار میں ہوا۔
سپریم کورٹ میں جاری یہ مقدمہ نہایت اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ اس کیس میں چوٹی کے وکیل کیس کی پیروی کر رہے تھے اور عدالت عظمیٰ کی تاریخ میں تقریباً ایک دہائی کے بعد ایسا موقع آیا ہے کہ ملک کے مایہ ناز قانون دان عدالت میں پیش ہوئے ہوں۔
ان وکلا میں پیپلز پارٹی کے رضا ربانی، حامد خان، رشید اے رضوی، منیر اے ملک، بابر ستار، جسٹس (ریٹائرڈ) طارق، سابق گورنر پنجاب رفیق رجوانہ، سابق گورنر پنجاب لطیف کھوسہ اور اکرم شیخ سمیت دیگر وکلا عدالت میں موجود تھے۔
عموماً عدالتی کارروائی کا آغاز صبح 9:30 پر ہوتا ہے مگر عدالتی وقت شروع ہونے سے پہلے ہی کمرہ نمبر 4 کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ عدالت میں موجود نشستوں پر صرف اور صرف وکلا براجمان تھے جبکہ صحافی حضرات اور دیگر وکلا عدالت میں جج صاحبان کا انتظار کر رہے تھے۔ صحافیوں میں یہ چہ مہ گوئیاں بھی ہو رہی تھیں کہ کیا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ خود عدالت میں آئیں گے۔
9:35 پر بینچ میں شامل ساتوں جج صاحبان کمرہ عدالت میں داخل ہوئے۔ بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک کو روسٹرم پر آنے کو کہا تو اس سے پہلے کہ منیر اے ملک دلائل کا آغاز کرتے، جسٹس عمر عطا بندیال نے ان کے وکالتی تجربے کی تعریف کی۔
منیر اے ملک نے اپنے دلائل کا آغاز چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی حالیہ تقریر سے کیا اور ان کی تقریر میں سے بار اور عدالت کے کردار، میڈیا کی زبان بندی اور احتساب کے عمل کے اقتباسات پر روشنی ڈالی۔ منیر اے ملک نے کیس کی حساسیت اور اہمیت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پوری قوم کی نظریں اس کیس پر لگی ہوئی ہیں۔
جہاں تمام ججز بغور منیر اے ملک کے دلائل کو سن رہے تھے، وہیں جسٹس اعجاز الاحسن بار بار میں عدالت میں موجود افراد پر نظر دوڑاتے پائے گئے۔ منیر اے ملک کے ساتھ سات وکلا پر مشتمل ان کی ٹیم بھی کھڑی تھی۔ اس کے علاوہ سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی بھی منیر اے ملک کے عقب میں کھڑے تھے۔
عدالت میں موجود کچھ وکلا سوتے ہوئے بھی نظر آئے، بالخصوص اکرم شیخ نے عدالتی کارروائی کا بیشتر وقت خواب خرگوش کے مزے لیتے ہوئے گزارا۔ ایک اور وکیل نیند میں اتنے مگن تھے کہ اپنے ہی خراٹے سے جاگ گئے۔
منیر اے ملک نے اپنے دلائل کے بارے میں عدالت کو آگاہ کیا کہ ان کے دلائل دو حصوں پر مشتمل ہیں جن میں سے ایک میں اس معاملے پر فل کورٹ بنانے کی استدعا ہے اور دوسرا معاملہ کیس کو سننے والے ججوں کی اہلیت کا ہے۔ ججوں کی اہلیت کو بھی دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے منیر اے ملک نے کہا کہ ان کا پہلا اعتراض سپریم جوڈیشل کونسل میں موجود سپریم کورٹ کے ججز پر ہے جبکہ دوسرا اعتراض لارجر بینچ میں موجود کچھ ججز پر ہے۔ منیر اے ملک کی استدعا تھی کہ لارجر بینچ اور فل کورٹ کی تشکیل میں ان ججوں کو شامل نہ کیا جائے۔
منیر اے ملک کی اس استدعا پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ان سے سوال کیا کہ ’وہ کیا چیز ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ کوئی جج غیر جانبدار ہو سکتا ہے؟‘ جسٹس عمر عطا بندیال نے مزید ریمارکس دیے کہ ’کسی جج پر شدید تنقید کرنے سے پہلے یہ جان لیں کہ اس عدالت کا کوئی بھی جج جانبدار نہیں اور نہ ہی کسی کا کوئی ذاتی مفاد ہے۔‘
منیر اے ملک نے اعتراض کی وضاحت کرتے ہوئے کہا: ’مدعا علیہ مستقبل میں چیف جسٹس بن رہے ہیں،‘ جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ مدعا علیہ کب چیف جسٹس بن رہے ہیں؟ تو منیر اے ملک نے کہا: ’آپ کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی باری ہے۔‘
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ’انسان کو اپنے کل کے بارے میں علم نہیں ہوتا اور یہاں تو چار سال کی بات ہو رہی ہے۔‘ منیر اے ملک نے وضاحت کی کہ ’بینچ میں بیٹھے کچھ جج جسٹس عیسیٰ کے چیف جسٹس بننے سے مستفید ہوں گے جن سے ان کی تنخواہ میں اضافہ بھی ہوگا۔‘ انہوں نے کہا کہ ’یہ ضروری ہے کہ نہ صرف انصاف ہو بلکہ انصاف ہوتا دکھائی بھی دے، جس کے لیے ضروری ہے کہ اس عمل میں کسی بھی قسم کا کوئی بھی شائبہ نہ ہو۔‘
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 2023 میں تقریباً ایک سال کے لیے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بن سکتے ہیں مگر ان کی برخاستگی کی صورت میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سردار طارق مسعود کے چیف جسٹس بننے کی باری جلد آسکتی ہے اور ان کے چیف جسٹس کے دورانیے میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔
دوران سماعت جسٹس بندیال اور منیر اے ملک کے سوال و جواب پر عدالت میں موجود دیگر وکلا بھی اپنے دلائل دے رہے تھے کہ کس کو کیا دلیل پیش کرنی چاہیے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جسٹس عمر عطا بندیال نے منیر اے ملک سے اگلے دلائل پیش کرنے کے لیے کہا اور ریمارکس دیے کہ ’بینچ میں موجود ججز خود فیصلہ کریں گے کہ وہ کیس کا حصہ بننا چاہتے ہیں یا نہیں، اس لیے یہ ان پر چھوڑ دیں اور آگے بڑھیں۔‘
ایک طرف جہاں منیر اے ملک اور بینچ کے درمیان قانون دلیلوں کا تبادلہ ہو رہا تھا وہیں ایک صحافی نے ایک وکیل کے کان میں سرگوشی کی کہ کیس کی اہمیت کا انداز اس سے لگا لیں کہ کچھ ججوں کا بینچ میں رہنا کتنا ضروری ہے۔ اسی اثنا میں سینیٹر رضا ربانی اپنی نشست پر واپس بیٹھ گئے۔
وزیر سائنس و ٹیکنالوجی کے بھائی اور پنجاب حکومت کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل بھی اپنی نشست سے اٹھ کر باہر جانے لگے تو جاتے جاتے انہوں نے صحافی مطیع اللہ جان کے کان میں سرگوشی کی کہ ’ایتھے انصاف ای ہوئے گا‘ جس پر مطیع اللہ جان اور ساتھ کھڑے صحافی مسکرانا شروع ہو گئے۔
10:15 تک لوگوں نے کمرہ عدالت سے جانا شروع کر دیا تھا۔ منیر اے ملک ججوں کی اہلیت کے سوال پر دلائل دینے پر مصر تھے۔ کچھ لمحے بعد معروف قانون دان بابر ستار بھی روسٹرم پر منیر اے ملک کے ساتھ کھڑے ہو گئے اور ان کی قانون معاونت کرنا شروع کر دی۔
منیر اے ملک نے اپنے دلائل کی حمایت میں ایک پرانے کیس کا ریفرنس دینا شروع کیا جو کہ نصف گھنٹہ جاری رہا۔ 45 منٹ پہلے تک عدالتی کارروائی میں جو دلچسپی نظر آرہی تھی، وہ ماند پڑھ رہی تھی۔ عدالت میں موجود کچھ وکلا سوتے ہوئے بھی نظر آئے، بالخصوص اکرم شیخ نے عدالتی کارروائی کا بیشتر وقت خواب خرگوش کے مزے لیتے ہوئے گزارا۔ ایک اور وکیل نیند میں اتنے مگن تھے کہ اپنے ہی خراٹے سے جاگ گئے۔
10:25 تک وہ وکیل جنہیں نشست نہیں مل سکی تھی وہ عدالت سے باہر نکلنا شروع ہو گئے۔ 10:55 پر جب منیر اے ملک نے پرانے کیس کا ریفرنس پڑھنا ختم کیا تو جسٹس بندیال نے ان کی تعریف کرتے ہوئے کہا: ’گڈ انگلش!‘
10:55 پر معمول کے مطابق بریک ہوئی تو عدالت میں موجود افراد نے باہر جانا شروع کیا۔ اُس وقت سب کی زبان پر ایک ہی سوال تھا کہ کیا جن ججز پر اعتراض کیا جا رہا ہے وہ بینچ سے دستبردار ہوں گے یا نہیں؟
یہ بھی پڑھیں: میرے خلاف کردار کشی کی مہم شروع کی گئی ہے: جسٹس فائز عیسیٰ
ایک صحافی نے عدالتی کارروائی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ کیس عدالتی مستقبل کے لیے اچھا نہیں کیونکہ آئندہ چار سال ان ججوں کے درمیان تناؤ رہے گا۔‘
عموماً عدالتی بریک 30 منٹ کی ہوتی ہے اور 11:30 یا 11:35 پر جج حضرات عدالت میں واپس آ جاتے ہیں مگر 11:55 تک جج کمرہ عدالت میں واپس نہ آئے تو انڈپینڈنٹ اردو نے کمرہ عدالت میں موجود ہائی کورٹ کے ایک سابق چیف جسٹس سے پوچھا کہ ججز کا وقت پر آنا معمول کی بات ہے؟ جس پر ان کا کہنا تھا کہ ’یہ نہایت غیر معمولی ہے اور اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ججز کے درمیان اس موضوع پر بحث جاری ہے۔‘
طویل انتظار کے باعث صحافیوں کے پاس کیس پر بحث کرنے کے لیے مواد ختم ہوا تو دیگر ملکی سیاست پر بحث شروع ہوگئی۔ رضا ربانی، رشید اے رضوی اور بابر ستار بھی آدھا گھنٹہ صحافیوں کے ساتھ خوش گپیاں کرتے رہے۔
جب منیر اے ملک نے پرانے کیس کا ریفرنس پڑھنا ختم کیا تو جسٹس بندیال نے ان کی تعریف کرتے ہوئے کہا: ’گڈ انگلش!‘
ٹھیک 12 بجے جج صاحبان کمرہ عدالت میں واپس آئے تو منیر اے ملک نے دلائل کا دوبارہ آغاز کیا۔ منیر اے ملک نے دلائل کا آغاز ہی کیا تھا کہ جسٹس عمر عطا بندیال نے انہیں ٹوکا اور کہا کہ ’وہ چیف جسٹس کو درخواست کر رہے ہیں کہ بینچ کی تشکیل دوبارہ کی جا سکے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’بینچ کے بعض ارکان۔۔۔‘ اور پھر خود ہی تصحیح کرتے ہوئے کہا کہ ’ایک رکن بینچ کا حصہ نہیں رہنا چاہتے۔‘ جسٹس بندیال نے منیر اے ملک سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ’جج بینچ سے علیحدگی کا فیصلہ اپنی مرضی سے کر رہے ہیں، ان کے کہنے پر نہیں۔‘ جسٹس بندیال نے بینچ کے رکن کا نام بتاتے ہوئے کہا کہ جسٹس سردار طارق مسعود نے بینچ سے علیحدگی کا فیصلہ کیا ہے۔
اسی دوران جسٹس سردار طارق مسعود نے جسٹس بندیال کے کان میں سرگوشی کی، جس کے بعد جسٹس بندیال نے منیر اے ملک سے کہا کہ ’جسٹس طارق مسعود کچھ کہنا چاہتے ہیں۔‘ جسٹس طارق مسعود نے بینچ سے علیحدگی کے فیصلے سے عدالت کو آگاہ کیا۔ جس کے بعد جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ’تحفظات ہونا بڑی بدقسمتی کی بات ہے۔ ان تحفظات کا کوئی جواز نہیں ہے مگر پھر بھی وہ مناسب سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو کیس سے علیحدہ کر لیں۔‘
عدالتی کارروائی کے اختتام پر جب انڈپینڈنٹ اردو نے بابر ستار سے سوال کیا کہ کیا وہ دونوں ججز کی بینچ سے علیحدگی ہی چاہتے تھے تو انہوں نے جواب دیا: ’آف کورس (بالکل)۔‘