پاکستان میں چائلڈ لیبر کے خلاف ہنگامی اقدام کی ضرورت

پاکستان میں چائلڈ لیبر کو کم کرنے اور روکنے کے لیے حکومت کو ایک طویل مدتی اور مضبوط ایکشن پلان بنانے کی ضرورت ہے۔

کراچی میں 12 جون، 2018 کو ایک مزدور بچہ ٹائر کی دکان پر کام میں مصروف ہے (اے ایف پی)

12 جون کو دنیا بھر میں بچوں سے مشقت اور محنت مزدوری کروانے کے خلاف شعور بیدار کرنے کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔

اقوام متحدہ کا ایک ادارہ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن 2002 سے ہر سال یہ دن منا رہا ہے۔

اس دن کو منانے کا مقصد یہ ہے کہ بچوں سے محنت مزدوری کروا کر ان سے ان کا بچپن نہ چھینا جائے اور ان کی تعلیم کے لیے کام کیا جائے جو ہر بچے کا بنیادی حق ہے۔

پاکستان میں کروڑوں بچے اپنے خاندان کے حالات سے مجبور ہو کر محنت مزدوری کرتے ہیں۔ کھیلنے کودنے اور سیکھنے کی عمر میں وہ سخت کام کر رہے ہوتے ہیں۔ ان سے ذرا سی غلطی ہو تو انہیں اس کے لیے سخت سزا دی جاتی ہے۔

اس تحریر کو کالم نگار کی آواز میں یہاں سنا جا سکتا ہے:

پچھلے کچھ سالوں میں مختلف صنعتوں اور شعبوں خصوصاً گھروں میں کام کرنے والے کم سن بچوں اور بچیوں پر سخت ترین تشدد کے واقعات سامنے آئے ہیں۔

ایسے ہر واقعے کے بعد کچھ دن تک سوشل میڈیا انصاف مانگتا رہتا ہے، ملک کے کچھ حصوں میں احتجاج ہوتے ہیں، قانون ساز اسمبلیوں میں بھی ایک دو لوگ غلطی سے جذباتی ہو جاتے ہیں، اس کے بعد پھر سے خاموشی چھا جاتی ہے۔

پالیسی سازی اور عوام کے لیے کام کرنا تو غالباً ہم بھول ہی چکے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں ایسے واقعات کے بعد قوانین تبدیل ہوتے ہیں، پالیسیاں بنتی ہیں، عوامی فلاح کے لیے کام ہوتا ہے اور ایسے اقدامات اٹھائے جاتے ہیں جن کی مدد سے ان واقعات کو کم اور ختم کیا جا سکے۔

ہمارے ہاں ایسے واقعات صرف وقتی توجہ حاصل کرنے اور ایک آئیکون بننے کا بہانہ بنتے ہیں۔ بہترین انگریزی اور اردو میں ڈھیروں تحقیق کے ساتھ پوسٹ کر کے اپنا حق ادا کر دیا جاتا ہے۔

ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا میں سات لاکھ، 45 ہزار بچے چائلڈ لیبر کا حصہ ہیں جبکہ صوبے میں کام کرنے والے بچوں کی آبادی 11 فیصد ہے۔

افسوس کہ یہ اس ملک میں اس اہم مسئلے کے حوالے سے بنائی جانے والی رپورٹ کی دوسری کوشش ہے۔ اس سے پہلے پنجاب میں چائلڈ لیبر کے حوالے سے رپورٹ بنی تھی۔

خیبر پختونخوا کے یہ بچے ذراعت، جنگلات، ماہی گیری، پانی اکٹھا کرنے، فیکٹریوں اور ہول سیل تجارت میں کام کر رہے تھے۔

ان بچوں کا تعلق ایسے گھرانوں سے تھا جہاں گھرانے کا سربراہ ان پڑھ تھا یا گھر سے دور کہیں کام کرتا تھا، گھر میں غربت تھی، گھرانہ بے نظیر انکم سپورٹ وصول کر رہا تھا یا بچے کے ماں اور باپ میں سے کوئی ایک وفات پا چکا تھا۔

چائلڈ لیبر بچوں کی جیب میں پیسے تو بھر دیتی ہے لیکن ان سے ان کا بچپن چھین لیتی ہے۔ وہ وقت سے پہلے بڑے ہو جاتے ہیں۔ انہیں جسمانی، ذہنی اور جذباتی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

بہت سے بچے خطرناک حالات میں کام کرتے ہیں۔ ان سے ان کی طاقت سے زیادہ اور برے حالات میں کام لیا جاتا ہے۔ بہت سے بچوں کو رات کے اوقات میں بھی کام کرنا پڑتا ہے۔

پاکستان میں چائلڈ لیبر کو کم کرنے اور روکنے کے لیے حکومت کو ایک طویل مدتی اور مضبوط ایکشن پلان بنانے کی ضرورت ہے۔

سب سے پہلے دیہی، دور دراز علاقوں اور پسماندہ شہری اضلاع میں بچوں کو غیر رسمی تعلیم فراہم کرنے کے انتظام کیے جائیں۔ بچوں کو پیشہ ورانہ تعلیم اور ہنر کی تعلیم دی جائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چائلڈ لیبر کے شکار بچوں کو ان کے کام کے ساتھ جزوی طور پر پڑھنے کا پابند بنایا جائے اور ان کے پڑھائی کے سلسلے کی مکمل نگرانی کی جائے۔

ایسے بچوں کے لیے سرکاری سکولوں میں چند گھنٹوں کے تعلیمی کورس متعارف کروائے جائیں۔

مقامی اور بین الاقوامی این جی اوز کی مدد سے ان بچوں کے لیے سکول بنائے جائیں جہاں انہیں خاص تعلیم مل سکے۔

اس طرح یہ بچے اپنے خاندان کے لیے پیسے کمانے کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھ پائیں گے۔

ساتھ ہی ساتھ چائلڈ لیبر پر سخت پابندیاں نافذ کی جائیں اور اس حوالے سے عوام میں آگاہی پھیلائی جائے۔

غربت کو کم کرنے کے لیے کام کیا جائے۔ لوگوں کو بہتر اور باعزت روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں۔

کام پر ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کیا جائے تاکہ لوگ اپنے بچوں کو کام پر لگانے کی بجائے خود کام کر کے اپنے گھروں کے حالات بہتر کر سکیں۔

ایک طویل مدت میں اس ایکشن پلان کی وجہ سے پاکستان بہت سے بچوں کو سکول لے جانے کے قابل بن سکے گا۔

ان بچوں کو تعلیم ملے گی اور اپنے ہم عصروں کے ساتھ ایک صحت مندانہ ماحول میں وقت گزارنے کا موقع ملے گا تو وہ بڑے ہو کر اپنے خاندان اور ملک کے لیے سرمایہ ثابت ہوں گے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ