پاکستان میں جگہ جگہ نو گزی لمبی قبروں کے مزارات قائم ہیں لیکن محقیقن کا کہنا ہے کہ اس معاملے کے حساس ہونے کی وجہ سے اس کی حقیقت معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی ہے۔
ڈاکٹر خاور نوازش، ڈائریکٹر، مرکز ترجمہ و بین الثقافتی مطالعات، بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان ہیں۔ انہوں نے انڈیپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا جتنے بھی علوم ہیں ان میں سے تاریخ ایک ایسا علم ہے جس کو طاقتوروں نے ہمیشہ اپنے مزاج کے مطابق اپنے مفاد کے مطابق موڑ دینے کی کوشش کی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ہم اب بھی ایک نظریاتی، مذہبی معاشرے میں رہتے ہیں تو یہاں پر جہاں چیزوں کے ساتھ نظریاتی اور مذہبی عقائد جڑے ہوئے ہیں وہاں پہ تحقیق مشکل ہے اور خاص طور پر مزارات اور قبریں یا ان کے ساتھ جو ہمارا ایک مذہبی تعلق ہے وہ بہت زیادہ ہے تو ان پر تحقیقات ایک مشکل مرحلہ ہے۔‘
صوبہ پنجاب کے جنوبی اضلاع ملتان اور اس کے گردو نواح میں لمبی لمبی قبریں اپنی کہانیوں سمیت موجود بھی ہیں۔ جدید تحقیقاتی وسائل ہونے کے باوجود ایسی اکثر قبریں ابھی تک معمہ بنی ہوئی ہیں۔
ڈاکٹر خاور نوازش کہتے ہیں کہ تاریخ میں بعض اوقات ایک ہی واقعہ یا ایک ہی دور کے مختلف واقعات کی مختلف تعبیرات مختلف توضیحات ہمارے ہاں موجود ہیں اور جب ظاہر ہے کہ ہر طاقتور اس واقعے کو اپنے مطابق شکل دیتا ہے تو ایک واقعہ کئی رنگ اختیار کر جاتا ہے۔
’جتنے بھی تاریخی مزارات ہیں مختلف پرانی قبریں ہیں ان میں بنیادی طور پر انسان کا اس کے پیچھے تجسس ایک بڑا اہم عنصر ہوتا ہے۔ بطور انسان ہماری خواہش ہوتی ہے کہ یہ جانا جائے کے اس قبر کے پیچھے کیا کہانی ہے، اس مزار کے پیچھے کیا کہانی ہے یہ جس شخصیت کا مزار ہے وہ شخصیت کیا تھی اس وجہ سے لوگ اس تجسس کے پیچھے تلاش میں نکلتے ہیں جس کا وہ مزار ہو اس شخصیت کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں اور جس کی وہ قبر ہو اس کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔‘
محقق قیصر عباس صابر نے ایک مضمون میں لکھا کہ قدیم زمانے کے کئی افراد اور پیغمبروں کی غیر معمولی طویل قامتی کے بارے مختلف روایتیں ملتی ہیں۔دوسری جانب انسان کے لاکھوں سال پرانے فاسلز آج بھی موجود ہیں۔ ’اس کے علاوہ ہزاروں سال پرانے انسان کے ڈھانچے بھی دنیا کے مختلف علاقوں سے دریافت ہوئے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو موجودہ انسان سے غیر معمولی حد تک بلند قامت ہو۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
البتہ ڈاکٹر خاور نوازش کے مطابق بنیادی طور پر جو نو گزی قبر کی بات ہے یہ عقیدے سے جڑی ہے۔ ’تاریخی سچ آرکیالوجی کی تحقیق سے سامنے آ سکتا ہے کہ اس نو گزی قبر میں موجود جو بھی سچ ہے کیا وہ واقعتا شخصیت اس کا قد اتنا قد تھا وہ کوئی واقعتا ایسی برگزیدہ شخصیت تھے یا نہیں تھے یہ تو سائنسی تحقیق کی بات آ جاتی ہے۔
’لیکن میرا ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ یہ جو نو گزیں قبر ہے بنیادی طور پر یہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کا عقیدہ بن گیا کسی شخصیت کے ساتھ اس کو منسوب کر دیا گیا لیکن حقیقت میں یہ کوئی اجتماعی قبر ہے جب بھی اس شہر میں کبھی قتلام ہوا جب اس شہر میں لوگوں کو ان کے اوپر مظالم ہوئے اور ان کو مارا گیا باہر سے آنے والے حملہ آوروں نے ان کو مارا تو اتنی تعداد میں لوگ یہاں پہ مرے کہ وہ ایک ہی قبر میں ڈال کے ایک قبر بنا دی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کے خیال میں ایک نیا تنازع اٹھ کھڑے ہونے کا خوف ہوتا ہے جس کی وجہ سے عام طور پر جتنے بھی ہمارے محققین ہیں وہ یہ نہیں چاہتے یا وہ اتنی ہمت نہیں کرتے کہ وہ ان قبروں پر تحقیقات کریں۔
انہوں نے بتایا کہ یہ صرف ملتان میں یا اس خطے میں نہیں ہے بلکہ ہڑپہ کے آثار ہیں وہاں بھی ایک نو گزی پیر کی قبر موجود ہے۔ ’ہمارا یہ ملتان کا خطہ جس کو شہر اولیا بھی کہا جاتا ہے یہاں پر صرف قبروں پر ہی نہیں بلکہ بہت سی عمارات پر بہت سے اور مقامات پر تحقیق کی بہت زیادہ گنجائش موجود ہے تو میں بالکل یہ سمجھتا ہوں کہ اس پر جو ہمارے آرکیالوجیسٹ ہیں ان کو تحقیق کرنی چاہیے جو اینتھراپالوجسٹ ہیں ان کو تحقیق کرنی چاہیے اور تحقیق تاریخ کر کے ایک متبادل بیانیہ بھی سامنے آ سکتا ہے۔‘
جن خطوں میں اس قسم کی تحقیقات ہو رہی ہیں اور بہت سی تاریخی نئے حقائق اور سچ سامنے آرہے ہیں وہاں کا سماج اور طرح سے سوچتا ہےاور وہاں پر لوگوں کے عقائد ضرور موجود ہیں لیکن وہ اب سائنٹیفکلی اتنے ایڈوانس ممالک ہو چکے ہیں کہ وہ اس قسم کی تحقیق کے لیے راستہ ہموار کرتے ہیں۔ ہمارے یہاں یہپ ابھی مشکل ہے۔‘