پاکستان نے جمعے کو اقوام متحدہ پر زور دیا ہے کہ وہ افغانستان میں طالبان انتظامیہ سے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تعلق ختم کرنے اور اسے غیر مسلح کرنے کا مطالبہ کرے۔
جمعے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے افغانستان کی عبوری انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ وہ اقوام متحدہ کی متعدد قراردادوں پر عمل کرتے ہوئے افغانستان میں فعال داعش، القاعدہ، ٹی ٹی پی، ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ (ای ٹی آئی ایم) اور اسلامک موومنٹ آف ازبکستان (آئی ایم یو) کے خلاف موثر اور متواتر کارروائی کرے۔
اپنی تقریر میں منیر اکرم نے کہا: ’افغانستان میں فعال ان گروہوں میں چند کو جو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے وہ افغانستان کے تمام پڑوسیوں اور عالمی برادری کے لیے سنگین خطرے کا باعث ہے۔ یہ دہشت گرد گروہ افغانستان کے لیے اور اس کی معاشی اور سماجی ترقی کے لیے بھی خطرہ ثابت ہو سکتے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ان گروہوں میں تحریک طالبان پاکستان، پاکستان کے لیے براہ راست اور سنگین خطرے کا باعث ہے۔ ٹی ٹی پی اور اس کی ذیلی تنظیمیں سرحد پار پاکستان پر کئی حملوں کی ذمہ دار ہیں جن میں عام شہریوں اور فوجی اہلکاروں سمیت سینکڑوں جانیں جا چکی ہیں۔‘
پاکستان کے دو صوبوں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں حالیہ دنوں میں عسکریت پسندوں کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے، جن میں سے ایک 26 مارچ کو خیبرپختونخوا کے ضلع شانگلہ کے علاقے بشام میں چینی شہریوں کی بس پر ہونے والا خود کش دھماکہ تھا، جس میں داسو ہائیڈرو پاور منصوبے پر کام کرنے پانچ چینی انجینیئرز جان سے چلے گئے تھے۔
پاکستانی حکام نے اس واقعے میں ملوث 11 عسکریت پسندوں کو مئی میں گرفتار کیا تھا، جن کے حوالے سے قومی انسداد دہشت گردی اتھارٹی (نیکٹا) کے سربراہ رائے طاہر اور وزیر داخلہ محسن نقوی نے بتایا کہ گرفتار افراد کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے ہے، ’جو افغانستان میں ٹی ٹی پی رہنماؤں سے ہدایات لے رہے تھے۔‘
پاکستان کی جانب سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ افغانستان کے طالبان حکمران سرحد پار ٹی ٹی پی جنگجوؤں کو پناہ دے رہے ہیں۔
تاہم افغان طالبان حکومت کا اصرار ہے کہ وہ کسی گروپ کو کسی بھی ملک میں تشدد کے لیے افغان سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔
اقوام متحدہ میں مستقل پاکستانی مندوب منیر اکرم نے کہا کہ ’پاکستان نے اعلیٰ سطح پر کئی بار افغانستان کی عبوری انتظامیہ سے رابطہ کر کے ان حملوں کو روکنے کا کہا ہے، لیکن بدقسمتی سے کئی بار وعدوں کے باوجود کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
’پاکستانی سرحد کے قریب اب بھی دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے موجود ہیں۔ سرحد پار حملے جاری ہیں اور ٹی ٹی پی کے ذیلی گروپ داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ پر کام کرنے والے کئی چینی انجینیئرز کو قتل کر چکے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
منیر اکرم کا اپنی تقریر میں مزید کہنا تھا کہ ’16 مارچ کو حافظ گل بہادر گروپ سے تعلق رکھنے والے ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں نے سرحد پار سے ایک حملے میں کئی پاکستانی فوجیوں کو شہید کر دیا۔
’جس کے بعد 18 مارچ کو پاکستان نے سرحد کے قریب افغانستان میں واقع دہشت گردوں کے ٹھکانے کو انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن میں نشانہ بنایا تاکہ ہم ایسے حملوں سے اپنی زمین کا دفاع کر سکیں۔ اس حملے میں دہشت گرد مارے گئے، عام شہری نہیں۔‘
انہوں نے اقوام متحدہ پر زور دیا کہ وہ ’اس بات کی تحقیقات کرے کہ ٹی ٹی پی کو جدید اسلحہ اور فنڈنگ ملنے کے ذرائع کیا ہیں، جن میں بیرونی ذرائع بھی شامل ہیں، جو 50 ہزار ٹی ٹی پی جنگجوؤں اور ان کے خاندانوں کو میسر ہیں۔‘
پاکستانی مندوب کے مطابق پاکستان پہلے بھی کہہ چکا ہے کہ افغانستان میں اور افغانستان سے ہونے والی دہشت گردی کا خاتمہ پاکستان اور عالمی برادری کی اولین ترجیح ہے۔
اقوام متحدہ میں پاکستانی مشن کے ایکس اکاؤنٹ پر جاری بیان کے مطابق پاکستانی مندوب نے کہا کہ ’گو کہ پاکستان نے افغانستان کی عبوری انتظامیہ سے رابطہ رکھنے پر زور دیا ہے تاکہ افغانستان کی صورت حال کو معمول پر لایا جا سکے، لیکن بین الاقوامی برادری اور افغانستان کی عبوری کو اپنے مقاصد کے بارے میں واضح موقف اختیار کرنا ہو گا۔ جب تک ہم یہ نہیں جانتے کہ ہم کیسا مستقبل چاہتے ہیں ہم وہ حاصل نہیں کر سکتے۔‘
منیر اکرم سلامتی کونسل پر زور دیا کہ افغانستان کی عبوری انتظامیہ سے مطالبہ کرے کہ وہ
- ٹی ٹی پی اور اس کی ذیلی تنظیموں سے تعلق ختم کر دے
- انہیں پاکستان کے خلاف سرحد پار سے حملے کرنے سے روکے
- ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو غیر مسلح کرے اور اس کی قیادت کو پکڑ کر پاکستان کے حوالے کرے
پاکستانی مندوب نے افغانستان میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’عالمی برادری کو افغانستان میں خواتین پر عائد پابندیوں پر تشویش ہے۔
’یہ پابندیاں عالمی قوانین یا اسلامی اقدار سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ افغانستان کی عبوری انتظامیہ سے توقع ہے کہ وہ خواتین اور بچیوں کو تعلیم، کام کرنے اور ان کے انسانی حقوق کی فراہم کی یقینی بنائے گی۔‘