پاکستان کے دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ ’تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ مذاکرات کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ پاکستان ٹی ٹی پی یا دیگر دہشت گرد گروہوں سے مذاکرات نہیں کر رہا-‘
ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرا بلوچ نے جمعرات کو ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو ہفتہ وار بریفنگ میں ایک سوال کے جواب میں افغان ڈپٹی وزیر داخلہ کی طرف سے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کے مشورے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’افغان حکومت ٹی ٹی پی کی قیادت اور دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے-‘
افغانستان کے نائب وزیر داخلہ محمد نبی عمری نے بدھ کو پاکستان اور تحریک طالبان پاکستان پر زور دیا کہ وہ اپنے تنازعات حل کریں اور نئے سرے سے مذاکرات شروع کریں۔
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ ’پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے ادارے عسکریت پسند گروہوں کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں، خصوصاً وہ گروپ جنہوں نے گذشتہ ہفتے شمال مغربی پاکستان میں ایک خودکش حملے میں پانچ چینی شہریوں کو ہلاک کر دیا تھا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اس موقع پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان تمام دہشت گرد گروہوں اور ان تمام قوتوں کے خلاف لڑنے کے لیے پرعزم ہے جنہوں نے پاکستان کو نشانہ بنایا ہے اور پاکستان چین دوستی کی علامتوں کو نشانہ بنایا ہے، بشمول بشام میں ہونے والا تازہ ترین حملہ۔‘
اگست 2021 میں کابل پر افغان طالبان کے اقتدار کے بعد پاکستان اور افغانستان میں دہشت گردانہ حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس حوالے پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ گذشتہ مہینے دہشت گردوں کے ایک حملے میں دو فوجی افسران سمیت سات پاکستانی فوجی جان سے گئے تھے، جس کے بعد پاکستانی فوج نے 18 مارچ کو افغانستان کے اندر ٹی ٹی پی کے مشتبہ ٹھکانوں پر غیر معمولی فضائی حملے کیے، جن میں آٹھ افراد جانوں سے گئے تھے۔
ان حملوں کے بعد افغان فورسز نے سرحد کے ساتھ پاکستانی فوجیوں پر بھاری ہتھیاروں سے فائرنگ کر کے اشتعال انگیزی کی۔
امریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان ویدانت پٹیل نے پریس بریفنگ کے دوران کہا تھا کہ ’ہم طالبان پر زور دیتے ہیں کہ افغان سرزمین سے دہشت گرد حملے نہ کیے جائیں اور ہم پاکستان پر بھی زور دیتے ہیں کہ تحمل کا مظاہرہ کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں شہریوں کو نقصان نہ پہنچے۔‘