زیر آب مائیکرو فونز لاپتہ ملائیشین جہاز کا سراغ لگا سکتے ہیں: ماہرین

کارڈف یونیورسٹی کے ماہرین کے خیال میں 2014 سے لاپتہ ملائیشیا کے مسافر طیارے کی زیر آب مائیکرو فونز کے ذریعے ریکارڈ کیے گئے سگنلز کی مدد سے کھوج لگائی جا سکتی ہے۔

تین مارچ، 2024 کو سبنگ جایا میں ایک خاتون ملائیشیا کے لاپتہ طیارے میں مارے جانے والے مسافروں کے اہل خانہ سے اظہار ہمدری کے لیے منعقدہ تقریب کے دوران اپنا پیغام درج کر رہی ہیں (اے ایف پی)

ملائیشیا کی فضائی کمپنی کی لاپتہ ہونے والی پرواز ایم ایچ 370 ایک دہائی سے ہوا بازی کی تاریخ کا معمہ چلی آ رہی ہے۔

تاہم اب امید پیدا ہو گئی ہے کہ زیر آب مائیکرو فونز کے ریکارڈ کیے گئے سگنلز کی مدد سے لاپتہ طیارے کا کھوج لگایا جا سکتا ہے۔

ملائیشیا کی فضائی کمپنی کا طیارہ آٹھ مارچ، 2014 کو دوران پرواز غائب ہو گیا تھا۔ یہ طیارہ ملائیشیا کے دارالحکومت کوالا لمپور سے چینی دارالحکومت بیجنگ جا رہا تھا۔

ایم ایچ 370 کے 239 مسافروں اور عملے کے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا، اس بارے میں مختلف نظریات کا تفصیل کے ساتھ جائزہ لیا گیا ہے۔

اب کارڈف یونیورسٹی کے ماہرین کا ماننا ہے کہ انہوں نے طیارے کی جنوبی بحر ہند پر پرواز کے آخری مرحلے میں ہائیڈرو فون (زیر آب مائیکروفون) کے سگنل کو شناخت کیا ہے۔

جب کوئی بڑا تصادم ہوتا ہے جیسا کہ بوئنگ 200۔777 طیارے کا گر کر تباہ ہونا، تو اس کے نتیجے میں سمندر میں ’بلند‘ آوازیں پیدا ہوتی ہیں۔
 
یہ آوازیں پانی میں سفر کرتی ہیں، جنہیں سمندر کی تہہ میں موجود مائیکرو فون جنہیں ہائیڈروفون کہا جاتا ہے، محسوس کر سکتے ہیں۔

پرواز کے 200 میٹر فی سیکنڈ کی رفتار کے ساتھ سمندر کے پانی کے ساتھ ٹکرانے کی صورت میں، کارڈف کے محققین کا اندازہ ہے کہ بہت زیادہ حرکی توانائی کا اخراج ہوا ہو گا، جس کی مثال ایک چھوٹا زلزلہ ہے۔

سرکاری سطح پر طیارے کی تلاش کا ساتواں آرک ایریا، مانا جاتا ہے کہ ایم ایچ 370 وہاں گر کر تباہ ہوا، جو آسٹریلیا کے کیپ لُووِن ہائیڈروایکوسٹک سٹیشن سے دو ہزار کلو میٹر دور ہے۔
ایم ایچ 370 کی پرواز

طیارے کو تلاش کرنے کے عمل میں تجویز کردہ وقت میں کیپ لوون میں چھ سیکنڈ کا ایک کمزور سگنل ریکارڈ کیا گیا تھا۔

لیکن محققین کا کہنا ہے کہ اگر طیارے کا پتہ لگانے کی کوششوں کا ازسرنو جائزہ لیا جائے تو دیگر سگنلز کی تصدیق ہو سکتی ہے۔

ایم ایچ 370 کی گمشدگی کے وقت بحر ہند میں ایک اور ہائیڈروایکوسٹک سٹیشن ڈیاگو گارشیا بھی کام کر رہا تھا۔

کارڈف یونیورسٹی کے سکول آف میتھمیٹکس کے پروفیسر ڈاکٹر اسامہ کدری کا کہنا ہے کہ ’ہمارے تجزیے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ماضی میں طیاروں کو پیش آنے والے حادثات کے واضح پریشر سگنل ہائیڈرو فونز میں پائے گئے۔ یہاں تک کہ 3000 کلومیٹر سے زیادہ کے فاصلے پر بھی۔

’ایم ایچ 370 کے معاملے میں سرکاری تحقیقات اس نتیجے پر پہنچی کہ طیارہ تلاش کے علاقے کے ساتویں حصے کے قریب گر کر تباہ ہوا ہو گا۔ یہ وہ مقام ہے جہاں طیارے اور انمارسیٹ (سیٹلائٹ ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی) کے درمیان آخری بار رابطہ ہوا تھا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نتائج کے بعد محققین نے حکام سے کہا ہے کہ وہ تلاش کے میدان کے ’ساتویں حصے میں منظم دھماکے یا ایئر گنز کے استعمال‘ سمیت فیلڈ تجربات کریں تاکہ قریبی ہائیڈرو ایکوسٹک سٹیشنوں پر موصول ہونے والے سگنلز پران کے اثرات کو جانچا جا سکے۔

اس ضمن میں مئی میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں 2017 میں ارجنٹائن کے ساحل سے غائب ہونے والی اے آر اے سان جوان آبدوز کے سرچ اینڈ ریسکیو مشن کا حوالہ دیا گیا۔

آبدوز کے غائب ہونے کے وقت اس کے پچک جانے کے نتیجے میں ہونے والے دھماکے اور موازنے کے لیے ایک سال بعد آوازوں کی نقل تیار کرنے کی خاطر دستی بموں کا استعمال کیا گیا۔

اس طرح ہائیڈروایکوسٹک ٹیکنالوجی نے جنوبی بحر اوقیانوس میں تین ہزار میٹر کی گہرانی میں موجود آبدوز کا پتہ لگانے میں میں مدد کی۔

ڈاکٹر کدری نے مزید کہا: ’بدقسمتی سے ہمیں یقین کے ساتھ کوئی ایسا سنگل نہیں ملا کہ جس کی لاپتہ طیارے کو نئے سرے سے تلاش کرنے کے لیے ضرورت ہے۔

’تاہم حکام کی جانب سے سفارشات پر عمل کرنے کی صورت میں، ہم مشاہدے میں آنے والے سنگل کے متعلقہ ہونے کے حوالے سے جائزہ لے سکتے ہیں۔ اس طرح ممکن ہے کہ ایم ایچ 370 کی موجودگی کے مقام پر روشنی پڑے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا