جب زلزلے نے ڈھائی ہزار سال قبل دریائے گنگا کا رخ بدل دیا

محققین نے اپنے مطالعے سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ڈھائی ہزار سال پہلے دریائے گنگا نے ایک بڑے اور اچانک زلزلے کے باعث اپنا راستہ تبدیل کیا جس کی شدت 7 یا 8 تھی۔

گنگا کا یہ فوسل چینل تقریباً 1.5 کلومیٹر چوڑا ایک نشیبی علاقہ ہے اور موجودہ دریا کے راستے کے متوازی تقریباً 100 کلومیٹر تک وقفے وقفے سے پھیلا ہوا ہے (سٹیو گڈبریڈ)

ایک نئی تحقیق کے مطابق ڈھائی ہزار سال قبل ایک تباہ کن زلزلے کے بعد برصغیر کے سب سے بڑے دریا گنگا کا رخ اچانک تبدیل ہو گیا تھا۔ یہ تاریخی واقعہ جنوبی ایشیا میں بڑے زلزلوں کے موجودہ خطرے پر بھی روشنی ڈالتا ہے۔

اس تحقیق میں شامل کولمبیا کلائمیٹ سکول سے وابستہ ماہرین نے ایک غیر دستاویزی زلزلے کے بارے میں دریافت کیا ہے، جس نے موجودہ بنگلہ دیش کو بری طرح متاثر کیا تھا۔

سائنسی جریدے ’نیچر‘ میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے شریک مصنف اور جیو فزیکسٹ مائیکل سٹیکلر نے اس بارے میں کہا کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ ہم نے اتنے شدید زلزلے کے آثار پہلے کبھی کہیں دیکھے ہیں۔‘

دریائے گنگا براعظم جنوبی امریکہ میں ایمازون کے بعد دنیا کا دوسرا سب سے بڑا دریا ہے، جو دریائے برہم پترا میں شامل ہونے اور خلیج بنگال میں گرنے سے پہلے شمالی انڈیا اور بنگلہ دیش میں 2,500 کلومیٹر سے زیادہ تک بہتا ہے۔

یہ آبی گزرگاہوں کی ایک وسیع بھول بھلیوں پر مشتمل دریا ہے جو کرہ ارض پر سب سے زیادہ گنجان آباد علاقے کو سیراب کرتا ہے۔

اگرچہ زلزلے زمین کی ساخت کو تبدیل کر سکتے ہیں لیکن دریا کی گزرگاہوں پر ان کے اثرات کو پوری طرح سے نہیں سمجھا گیا۔

دریا عام طور پر زلزلوں کے بغیر بھی وقتاً فوقتاً اپنا رخ تبدیل کر سکتے ہیں لیکن یہ عمل عام طور پر برسوں یا دہائیوں میں مسلسل سیلابوں کے سبب ہوتا ہے۔

جب کوئی دریا اپنا رخ بدلتا ہے تو گاد (یا سِلٹ)  بالائی حصے سے منتقل ہو کر جمع ہوتی رہتی ہے اور آخر کار دریا کا پیندہ ارد گرد کے سیلابی میدان سے بلند ہوجاتا ہے۔

لیکن جب یہ (راستہ بدلنے والی) تبدیلی زلزلے کی وجہ سے ہوتی ہے تو گاد کا بہاؤ تقریباً فوری طور پر ہو سکتا ہے۔

نئی تحقیق میں سائنس دانوں نے ایک منفرد گاد دریافت کی جو پہلی بار ڈھاکہ کے قریب ایک تازہ کھودے ہوئے تالاب سے دریافت ہوئی تھی، جو ابھی تک پانی سے نہیں بھرا تھا۔

تالاب کے ایک کنارے انہوں نے ریت کا عمودی بند دیکھا جو زلزلوں سے پیدا ہونے والی خصوصیت کے حوالے سے مشہور ہیں۔

محققین نے کہا کہ جب زلزلے دبی ہوئی ریت پر دباؤ ڈالتے ہیں اور اس سے ’ریت کے آتش فشاں‘ کی طرح مٹی باہر نکلتی ہے۔

مزید تجزیے پر سائنس دانوں نے پایا کہ تالاب میں موجود ریت کے بند تقریباً 2500 سال پہلے ایک ہی وقت میں تخلیق ہوئے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک سائٹ پر اسی طرح کی تبدیلی تقریباً 85 کلومیٹر نیچے کی طرف دریافت ہوئی۔

محققین کا کہنا ہے کہ یہ تبدیلیاں دریا کی مرکزی گزرگاہ کا ثبوت ہیں، جو ڈھاکہ سے تقریباً 100 کلومیٹر جنوب میں بہتا تھا۔

گنگا کا یہ فوسل چینل تقریباً 1.5 کلومیٹر چوڑا ایک نشیبی علاقہ ہے اور موجودہ دریا کے راستے کے متوازی تقریباً 100 کلومیٹر تک وقفے وقفے سے پھیلا ہوا ہے۔

سائنس دانوں نے کہا کہ ناپید ہونے والی اس دریائی گزرگاہ میں اکثر سیلاب آتا ہے اور اسے بنیادی طور پر چاول کی کاشت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

محققین نے اپنے مطالعے سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ایسا ایک ’بڑے اور اچانک زلزلے کے باعث ہوا جس کی شدت سات یا آٹھ تھی جو کہ ڈھائی ہزار سال پہلے اس علاقے میں آیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ممکنہ طور پر یہ زلزلہ بنگلہ دیش، میانمار اور شمال مشرقی انڈیا کے نیچے سمندر کے اندر ایک بڑی ٹیکٹونک پلیٹ کے سرکنے کی وجہ سے آیا تھا۔

سائنس دانوں نے نوٹ کیا کہ یہ زونز اب بھی دباؤ پیدا کر رہے ہیں جو اس گنجان آباد علاقے میں دوبارہ اسی شدت کے زلزلے پیدا کر سکتے ہیں۔

بنگلہ دیش اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور مطالعہ کے مصنف سید ہمایوں اختر نے کہا کہ ’بڑے زلزلے بڑے علاقوں کو متاثر کرتے ہیں جو دیرپا معاشی، سماجی اور سیاسی اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق