امریکی صدر جو بائیڈن نے پیر کو کہا کہ انہیں ریاست ٹیکسس میں ایک خاتون کی جانب سے فلسطینی نژاد امریکی تین سالہ بچی کو مبینہ طور پر سوئمنگ پول میں ڈبونے کی کوشش سے متعلق خبروں پر ’شدید تکلیف‘ ہوئی ہے۔
عدالتی ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ مئی میں پیش آنے والے واقعے کے بعد خاتون پر قتل کی کوشش کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ اس واقعے نے اختتام ہفتہ پر قومی سطح پر توجہ حاصل کر لی تھی۔
42 سالہ خاتون جن کی شناخت الزبتھ ولف کے نام سے ہوئی ہے، مبینہ طور پر ڈیلس کے مضافاتی علاقے میں واقع سوئمنگ پول کے قریب ایک خاتون کے پاس پہنچیں جنہوں نے حجاب پہن رکھا تھا۔
امریکی ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کے مطابق انہوں نے خاتون سے سوال کیا کہ کیا چھ سالہ بیٹا اور تین سالہ بیٹی ان کی ہیں؟ انہوں نے چند نسل پرستانہ جملے بھی کہے۔
امریکی خاتون نے مبینہ طور پر لڑکے کو پکڑ لیا جو خود کو آزاد کروا لیا۔ اس کے بعد انہوں نے بچی کو بھی پکڑ لیا جسے انہوں نے پانی میں ڈبونے کی کوشش کی۔
بائیڈن نے پیر کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر پوسٹ میں کہا کہ ’کسی بھی بچے کو کبھی پرتشدد حملے کا نشانہ نہیں بنایا جانا چاہیے اور میری ہمددری متاثرہ خاندان کے ساتھ ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امریکی صدر نے مزید کہا: ’مضافاتی علاقے کے تالاب میں تین سالہ فلسطینی نژاد امریکی بچی کے ڈبونے کی کوشش کی خبروں سے بہت مجھے بہت تکلیف ہوئی ہے۔‘
ہفتے کو کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز (سی اے آئی آر) کی ٹیکسس شاخ جو نفرت پر مبنی جرائم کی تحقیقات کا مطالبہ کر چکی ہے، نے اس واقعے پر ایک پریس کانفرنس کی۔
سی اے آئی آر کی طرف سے جاری کردہ بیان میں بچی کی والدہ نے کہا کہ ان کا خاندان فلسطینی نژاد امریکی شہری ہیں۔
یہ واقعہ غزہ پر اسرائیلی حملوں کے موقعے پر پیش آیا ہے۔ غزہ کی صورت حال امریکہ میں اور خاص طور پر یونیورسٹیوں میں جذبات کو بھڑکا دیا ہے۔ امریکی جامعات میں غزہ پر حملوں کے متعدد مظاہرے ہو چکے ہیں۔
غزہ کی صورت حال کی وجہ سے امریکہ بھر میں اسلامو فوبیا اور یہودی دشمنی پر مبنی کئی واقعات ہو چکے ہیں۔
نومبر میں شمال مشرقی ریاست ورمونٹ میں ایک شخص نے فلسطینی نژاد تین طلبہ کو گولی مار کر زخمی کر دیا۔ پولیس کے مطابق اکتوبر کے شروع میں شکاگو کے قریب چھ سالہ مسلمان بچے کو چاقو سے وار کر کے قتل کر دیا گیا۔
روئٹرز کے مطابق ٹیکسس پولیس نے پیر کو کہا کہ یہ واقعہ تعصب پر مبنی تھا۔
یہ واقعہ مئی میں پیش آیا تھا لیکن اس نے پیر کو میڈیا کی توجہ اس وقت حاصل ہوئی جب کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز نے متاثرہ خاندان کو مدد کی پیش کش کی اور بیان جاری کیا جس میں متاثرہ خاندان کی شناخت مذہب اور قومیت کے لحاظ سے کی گئی۔
ڈیلس کے مضافاتی علاقے یولیس کی پولیس نے پیر کو ایک بیان میں کہا کہ ’یولیس پولیس ڈپارٹمنٹ کا خیال ہے کہ یہ جرم تعصب یا بغض کی وجہ سے کیا گیا اور یہ بات اس مقدمے کا حصہ ہے۔‘