امریکی صدر جو بائیڈن نے عید الاضحیٰ کے موقع پر جاری اپنے بیان میں امریکہ اور دنیا بھر میں بسنے والے مسلمانوں کو مبارک باد دیتے ہوئے ایک بار پھر غزہ میں فائر بندی پر زور دیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اتوار کو جاری بیان میں ان کا کہنا تھا کہ ’یہ حماس اور اسرائیل کے درمیان لڑائی کی ہولناکیوں کا شکار شہریوں کی مدد کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔‘
صدر بائیڈن نے کہا کہ ’ہزاروں بچوں سمیت بہت سے بے گناہ لوگ مارے گئے ہیں۔ خاندانوں نے اپنے گھروں کو چھوڑ دیا ہے اور اپنی برادریوں کو تباہ ہوتے دیکھا ہے۔‘
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ’ان کا درد بہت زیادہ ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ مجھے یقین ہے کہ ’اسرائیل نے حماس کو تین مرحلوں پر مشتمل جنگ بندی کی جو تجویز پیش کی ہے اور جس کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے توثیق کی ہے وہ غزہ میں تشدد کے خاتمے اور بالآخر جنگ کے خاتمے کا بہترین طریقہ ہے۔‘
امریکہ اسرائیل اور فلسطینی تنظیم حماس پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ سلامتی کونسل کے ارکان کی جانب گذشتہ ہفتے طے پانے والے فائر بندی معاہدے کو باضابطہ طور پر قبول کریں جو ابتدائی طور پر چھ ہفتوں کے لیے فائر بندی کی اجازت دے گا۔
دوسری جانب عید الاضحی کے دن غزہ میں نسبتا پرسکون دن دیکھا گیا جب اسرائیل نے امداد کی فراہمی کو آسان بنانے کے لیے رفح کے قریب لڑائی میں ’ٹیکٹیکل وقفے‘ کا اعلان کیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اپنے پیغام میں امریکی صدر نے میانمار میں روہنگیا اور چین میں اویغور مسلمانوں سمیت ظلم و ستم کا سامنا کرنے والی ’دیگر مسلم برادریوں کے حقوق کی وکالت‘ کرنے کی امریکی کوششوں کا بھی ذکر کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم سوڈان میں اس ہولناک تنازعے کے پرامن حل کے لیے بھی کام کر رہے ہیں‘ جو اپریل 2023 سے ملک کی فوج اور ایک حریف نیم فوجی گروپ کے درمیان لڑائی کی لپیٹ میں ہے۔
داخلی محاذ پر بائیڈن کے اتوار کے روز جاری ہونے والے پیغام میں امریکی مسلمانوں سے براہ راست اپیل کرتے ہوئے اسلامو فوبیا کے خلاف کریک ڈاؤن کا بھی وعدہ کیا گیا ہے، جو ان کے رپبلکن مخالف ٹرمپ کے خلاف انتخابی مہم کے دوران اہم اعلان سمجھا جا رہا ہے۔
بائیڈن نے مزید کہا کہ ’میری انتظامیہ اسلاموفوبیا اور اس سے متعلق تعصب اور امتیازی سلوک کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک قومی حکمت عملی تشکیل دے رہی ہے، جس سے نہ صرف مسلمان بلکہ عرب، سکھ اور جنوبی ایشیائی امریکی بھی متاثر ہوتے ہیں۔‘