ایک نئی تحقیق میں اس بات کے واضح شواہد ملے ہیں کہ پلاسٹک کی بوتلوں میں عام طور پر پایا جانے والا کیمیکل ٹائپ ٹو ذیابیطس کے امکانات میں اضافے سے منسلک ہے۔
جریدے ’ڈائبیٹیز‘ میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ پلاسٹک سے بنی پانی کی بوتلوں سمیت کھانے پینے کی اشیا کے پیکج بنانے میں استعمال ہونے والا بی پی اے نامی کیمیکل ہارمون انسولین کی حساسیت کو کم کر سکتا ہے جو جسم کے شوگر میٹابولزم میں باقاعدگی لاتا ہے۔
اس تحقیق کے نتائج میں جو امریکی ذیابیطس ایسوسی ایشن کے 2024 کے سائنسی اجلاسوں میں پیش کیے جائیں گے، تحفظ ماحول کے امریکی ادارے (ای پی اے) پر زور دیا گیا ہے کہ وہ پلاسٹک کی بوتلوں اور خوراک کے پیکٹوں میں بی پی اے کی محفوظ مقدار کی حد پر نظرثانی کرے۔
اس سے قبل ہونے والی تحقیق میں یہ بات سامنے آچکی ہے کہ پلاسٹک اور ایپوکسی رال بنانے میں استعمال ہونے والا کیمیکل بسفینول اے انسانوں میں ہارمونز کو متاثر کر سکتا ہے۔
اگرچہ تازہ تحقیق نے بی پی اے کو ذیابیطس کے مرض کے ساتھ جوڑا ہے لیکن ماضی میں ہونے والی کسی بھی تحقیق میں یہ جائزہ نہیں لیا گیا کہ یہ کیمیکل جسم میں جانے کی صورت میں بالغ افراد میں ذیابیطس میں مبتلا ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
کیلیفورنیا پولی ٹیکنک سٹیٹ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے سائنس دانوں نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’تحقیق میں پہلی بار شواہد فراہم کیے گئے ہیں کہ بی پی اے جسم میں جانے سے ٹائپ ٹو ذیابیطس میں مبتلا ہونے کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔‘
تحقیق میں محققین نے 40 بالغ افراد کا انتخاب کیا جنہیں کسی خاص ترتیب کے بغیر کوئی اثر نہ رکھنے والی دوا یا ان کے فی کلوگرام وزن کی بنیاد پر یومیہ تقریباً 50 مائیکرو گرام بی پی اے دیا گیا۔
تحفظ ماحول کے امریکی ادارے نے کیمیکل کی اس مقدار کو محفوظ قرار دے رکھا ہے۔کوئی اثر نہ رکھنے والی دوا لینے والے گروپ کے برعکس جن لوگوں کو بی پی اے دیا گیا ان میں چار دن بعد انسولین کے اثر کو کم دیکھا گیا۔
محققین نے متنبہ کیا ہے کہ ’ان نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ شاید ای پی اے کی جانب سے محفوظ قرار دی گئی مقدار پر دوبارہ غور کیا جانا چاہیے اور علاج معالجے کی سہولت فراہم کرنے والے مریضوں کو اس تبدیلی کو قبول کرنے کا مشورہ دے سکتے ہیں۔‘
محققین کا کہنا ہے کہ فولاد یا شیشے کی بوتلیں اور بی پی اے سے پاک کین استعمال کرتے ہوئے جسم میں جانے والی بی پی اے کی مقدار کم کر کے ذیابیطس کے خطرے میں کمی لائی جا سکتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پلاسٹک کی بوتلیں اپنی سہولت کی وجہ سے دنیا بھر میں ہر جگہ استعمال کی جاتی ہیں لیکن بڑھتی ہوئی تحقیق بوتلوں کے کیمیائی اجزا کے صحت پر اثرات کے بارے میں خدشات پیدا کر رہی ہے۔
حال ہی میں ایکو انوائرنمنٹ اینڈ ہیلتھ نامی جریدے میں شائع ہونے والی ایک اور تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ سورج کی روشنی میں آنے والی پلاسٹک کی پانی کی بوتلیں نقصان دہ کیمیکلز خارج کر سکتی ہیں۔
اس تحقیق میں چھ اقسام کی پلاسٹک سے بنی پانی کی بوتلوں سے سورج کی روشنی میں خارج ہو کر فضا میں شامل ہونے والے نامیاتی مرکبات یا وی او سیز کا جائزہ لیا گیا۔
تحقیق سے پتہ چلا کہ کچھ قسم کی بوتلیں انتہائی زہریلے نامیاتی مرکبات خارج کرتی ہیں جن میں سرطان کا سبب بننے والے معروف کیمیکل، جیسے کہ این ہیکساڈیکین شامل ہیں۔ تحقیق میں صحت کو لاحق سنگین خطرات کو نمایاں کیا گیا۔
ان نتائج میں زور دیا گیا ہے کہ نقصان کیمیکل کے اثرات کا شکار ہونے کے امکان کو کم کرنے کے لیے زیادہ سخت صنعتی ضوابط متعارف کروائے جائیں۔
امریکی ذیابیطس ایسوسی ایشن (اے ڈی اے) کے چیف سائنٹفک اور میڈیکل افسر رابرٹ گیبے کے بقول: ’یہ محض اس امر کو نمایاں کرنے کا آغاز ہے کہ ہمیں عوامی صحت کی حفاظت کے لیے واضح سفارشات اور پالیسیوں کی ضرورت ہے۔‘
© The Independent