نیند کے معمول میں پڑنے والا خلل اور رات دیر گئے کھانا ذیابیطس کے مرض اور وزن میں اضافے کے ساتھ کیوں جڑا ہوا ہے، سائنس دانوں نے اس بات کا پتہ لگا لیا ہے۔
یہ ایسی پیشرفت ہے جو غذا اور نیند سے محرومی کے معاملے میں وسیع اثرات کی حامل ہے۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق پوری دنیا کی آبادی کا تقریباً دسواں حصہ ذیابیطس میں مبتلا ہے۔ یہ دائمی مرض 2019 میں 15 لاکھ اموات کا براہ راست سبب بنا۔
ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں دو ارب کے لگ بھگ بالغ افراد کا وزن مقررہ پیمانے سے زیادہ ہے جن میں سے 65 کروڑ سے زائد لوگوں کے بارے سمجھا جاتا ہے کہ وہ موٹاپے کا شکار ہیں۔
امریکہ کی نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے محققین سمیت سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اگرچہ مطالعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ زیادہ کھانا چکنائی کی بافتوں میں تبدیلی اور جسم کے حیاتیاتی گھڑی میں خلل پیدا کرتا ہے لیکن کھانے کے وقت، نیند اور موٹاپے کے درمیان ٹھیک ٹھیک تعلق اچھی طرح نہیں سمجھا جا سکا۔
تحقیق کی شریک مصنف چیلسی ہیپلر نے ایک بیان میں کہا کہ ’چکنائی کے ٹشو کی سطح پر (حیاتیاتی) گھڑیاں میٹابولک صحت پر بہت زیادہ اثرات مرتب کر رہی ہیں لیکن ابھی تک ہمیں یہ معلوم نہیں کہ وہ اثرات ہیں کس حد تک۔‘
قبل ازیں رواں ماہ سائنس نامی جریدے میں شائع ہونے والی نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ خوراک ہضم ہونے کے بعد توانائی کا اخراج مالیکولر نظام ہو سکتا ہے جس کے ذریعے جسم کی حیاتیاتی گھڑی یعنی سرکیڈین ردم (سونے اور جاگنے کو باقاعدہ بنانے والا قدرتی داخلی عمل) وزن بڑھانے کے عمل پر اثرانداز ہوتا ہے۔
سائنس دانوں نے اس تحقیق کی بنیاد پر کہا ہے کہ دن ایک مثالی وقت ہوتا جب انسانی جسم توانائی کو حرارت کی شکل میں سب سے زیادہ زائل کرتا ہے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ان نتائج کے خوراک سے لے کر نیند تک وسیع اثرات ہیں اور اس پر بھی کہ مستقل طور پر ہسپتال میں داخل مریضوں جنہیں طویل مدت کی غذائی معاونت کی ضرورت ہے، انہیں کس طرح خوراک دی جاتی ہے۔
تحقیق کے سرکردہ مصنف جوزف ٹی باس کا ایک بیان میں کہنا ہے کہ ’جب جانور مغربی طرز کی کیفے ٹیریا خوراک یعنی زیادہ چکنائی اور نشاستہ استعمال کرتے ہیں تو گھڑی میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔‘
ڈاکٹر باس نے وضاحت کی ہے کہ ’یہ گھڑی لوگوں کے کھانے کے وقت کے اعتبار سے حساس ہے۔ خاص طور پر چکنائی کے ٹشو کے معاملے میں اور یہ کہ زیادہ چکنائی والی خوراکیں اس حساسیت کو ختم کر دیتی ہیں۔ ہمیں ابھی تک علم نہیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے لیکن ہمیں یہ ضرور پتہ ہے کہ جب طرح جانور فربہ ہو جاتے ہیں تو وہ اس وقت زیادہ کھانا شروع کر دیتے ہیں جب انہیں سوتے ہونا چاہیے۔ اس تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس بات کی اہمیت کیوں ہے۔‘
تحقیق کے دوران سائنس دانوں نے چوہوں کو یا تو ان کے خاص طور پر غیر فعال ہونے (روشن) یا فعال ہونے (تاریک) کے وقت میں زیادہ چکنائی والی غذا دی۔ سائنس دانوں کو پتہ چلا کہ وہ چوہے جنیں دن کو غذا کھلائی گئی انہوں نے رات کو غذا لینے والوں کے مقابلے میں زیادہ وزن بڑھایا۔
محققین نے دوسرے عوامل کو بھی کنٹرول کیا جن میں درجہ حرارت بھی شامل ہے۔ درجہ حرارت کو 30 درجے پر رکھا گیا جس پر چوہے بہت کم توانائی استعمال کرتے ہیں۔
ڈاکٹر ہیپلر کے بقول: ’ہم نے سوچا کہ شاید توانائی کے توازن کا کوئی جزو ہے جس میں چوہے مخصوص اوقات میں کھاتے ہوئے زیادہ توانائی استعمال کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دن کے مختلف اوقات میں ایک ہی مقدار میں خوراک کھا سکتے اورزیادہ صحت مند ہو سکتے ہیں جب وہ فعال ادوار کے دوران کھاتے ہیں بمقابلہ ان ادوار کے کہ جب انہیں سونا چاہیے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تجربے کے بعد سائنس دانوں نے چوہوں میں چکنائی کی بافت کے میٹابولزم کے تجزیہ کیا تاکہ اندازہ کیا جا سکے کہ آیا اس عضو میں توانائی کے استعمال کا اثر یکساں تھا۔ انہیں پتہ چلا کہ وہ چوہے جنہوں نے تھرموجینیسس یا چکنائی کے خلیوں کے ذریعے حرارت کے اخراج کی صلاحیت کو جینیاتی طور پر بہتر بنا لیا تھا، انہوں نے وزن میں اضافہ روک دیا اور صحت بہتر کر لی۔
محققین نے تحقیق میں لکھا ہے کہ ’چوہوں کو روزہ مرہ سائیکل کے فعال مرحلے (چوہوں کے لیے رات کا وقت) کے دوران زیادہ چکنائی والی خوراک دی گئی تو انہوں نے زیادہ توانائی استعمال کی جو حرارت پیدا کرنے کے لیے خوراک کے جزو بدن کے عمل کا نتیجہ تھی۔‘ سائنس دانوں کے علم میں یہ بھی آیا کہ مولیکیول کری ایٹن (ایک نامیاتی مرکب) حرارت کے اس اخراج کے پیچھے ہو سکتا ہے۔
سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ نئے نتائج دائمی دیکھ بھال کے عمل خاص طور پر ان صورتوں میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں جن میں مریضوں کو براہ راست معدے تک جانے والی نالی کے ذریعے خوراک دی جاتی ہے۔
وہ مریض جنہیں عام طور پر رات کو اس وقت خوراک دی جاتی ہے جب وہ سو رہے ہوتے ہیں، ان مریضوں میں ذیابیطس کے مرض کی شرحیں اور موٹاپا ماضی میں ہونے والے مطالعات میں زیادہ پائے گئے۔
سائنس دانوں کو نئے نتائج کی بنیاد پر شبہ ہے کہ ایسا اس لیے ہو سکتا ہے کہ ایسے مریض بہت کم توانائی خارج کرتے ہیں کہ کیوں کہ رات کے وقت وہ نیند میں ہوتے ہیں۔
محققین نے اپنی تحقیق میں لکھا ہے کہ ’ان نتائج سے صحیح وقت پر غذا دینے کے فوائد کے بارے میں وضاحت ہوتی ہے اور یہ کہ سونے اور جاگنے کے عمل میں خلل میٹابولزم کی بیماری میں کس طرح کردار ادا کرتا ہے۔‘
© The Independent