ایسا میرے ساتھ ہی کیوں ہوا؟
جس وقت ہمیں کوئی تکلیف ہوتی ہے، دکھ، غم، کوئی پریشانی ملتی ہے تو ہمارا پہلا سوال یہی ہوتا ہے کہ ایسا میرے ساتھ کیوں ہوا؟
ہمارا غم، ہماری تکلیف، سب سے پہلے اس سوال کا جواب مانگتے ہیں۔ غصہ آتا رہتا ہے، وہ ختم ہو تو پھر لامحدود سوچیں اور ان کے ساتھ بہت سے آنسو، یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے لیکن جواب نہیں ملتا۔ جواب ملنے سے پہلے ہر تسلی، ہر بہلاوہ بے کار کی بات لگتی ہے لیکن جواب کون دے؟
ایک بندہ بولے گا صبر کرو، دوسرا کہے گا سب کے ساتھ یہی ہوتا ہے، تیسرے کے مطابق اچھا وقت آنے والا ہو گا، چوتھے نے سمجھانا ہے کہ دنیا کا یہی دستور ہے، چیزیں ایسے ہی چلتی ہیں، مگر۔۔۔
آپ کی دنیا صرف آپ ہیں؛ اور آپ کو معلوم ہے کہ یہی سب باتیں برے ٹائم پہ دوسروں کے ساتھ آپ بھی کرتے آئے ہیں۔
لیکن، یہ سب کچھ شدید ضروری ہے، کیوں، آگے دیکھتے ہیں۔ دنیا میں ہر اہم چیز کے سامنے سے پردہ ہٹائیں گے تو پیچھے غم کھڑا ہوا ملے گا۔
وہ نہیں دیکھتا کس کے ساتھ ہوا، کون شکار تھا، کون شکاری تھا، کسے تکلیف ہے، کسے غصہ ہے، اس نے آنا تو ہے لیکن جاتے ہوئے اپنی ان مٹ چھاپ لگا کے جانی ہے۔
کسی پہاڑ پہ آپ ایک گھنٹہ اکیلے کھڑے ہو جائیں، سمندر کے ساحل پہ کوئی اکیلا کونا مل لیں، چودھویں رات میں چارپائی ڈالے چاند کو دیکھیں، دیکھتے رہیں، شروع میں آپ خوش ہوں گے لیکن آہستہ آہستہ ایک اداسی اندر اترتی جائے گی۔ ایسا کیوں؟
اس لیے کہ غم انسانی فطرت میں ہمیشہ رہنے والا واحد جذبہ ہے۔ کوئی پینٹنگ ہو، کیمرے سے بنی تصویر ہو، فلم ہو، ڈرامہ، تھیٹر، ادب ۔۔۔
ہر بڑے شاہکار کے نیچے ایک غم دبا ہوا آپ کو ملے گا۔ کم، زیادہ، گزرتا وقت شدت بدل دے گا لیکن ہمیشگی باقی رہے گی۔
گویا اس کا مطلب ہوا کہ غم کو یہ سمجھ کر قبول کر لیں کہ اس نے آپ سے کچھ بڑا کروا کے جانا ہے؟ کوئی اہم کام، کوئی معرکہ؟
نہیں، لاکھوں میں سے ایک آدمی کا غم اسے کوئی ایسا انعام دے کر جاتا ہے ورنہ ہم آپ کیا اور ہمارے دکھ درد کیا۔۔۔
غم زندگی سے گزرنے کا بس ایک ایسا راستہ ہے جس پہ چلے بغیر آگے بڑھا نہیں جا سکتا، اور یہ زور ہے، زبردستی ہے، جبر ہے، لیکن بس ہے!
جتنے مرضی لاتعلق ہو جائیں، رشتے ختم کر لیں، مضبوط بن جائیں، اپنے حصے کا غم خود دروازے پہ آئے گا، دستک پہ آپ دروازہ کھولیں گے بھی اور اسے وصول بھی کریں گے۔
تکلیف کا یہ پارسل آپ ہی کو کیوں ملا، اس کا جواب بہرحال نہیں ملے گا، کبھی بھی نہیں ملے گا۔
ایسے میں انسان کام آتے ہیں۔ ہم جیسے وہ سب جن کے پاس جواب نہیں ہوتا لیکن تجربہ ہوتا ہے، جن کے چہروں پہ ہر گزرتا سال ایک لکیر چھوڑ جاتا ہے۔
جائیں دیکھیں فوٹوگرافروں کی وہ تصویریں کامیاب کیوں ہوتی ہیں جن میں کوئی ایک بابا چہرے پہ بہت سی جھریاں سجائے بیٹھا ہوتا ہے؟ کیا غربت بکتی ہے؟
کیا لوگ پریشانی دیکھنا چاہتے ہیں؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نہیں، وہ چہرہ آپ کو سکون کا احساس دلاتا ہے، صرف اس لیے کہ اس میں ہر دیکھنے والے کو خود اپنا عکس نظر آ رہا ہوتا ہے۔
اسے دکھ رہا ہوتا ہے کہ میں بھی ایک دن مصیبتوں کے جنگل سے گزر کے بالاخر اسی جیسا ہو جاؤں گا، یہی سب کچھ میرے چہرے پر لکھا ہوا ہے، عمر گزرے گی تو بس ابھر آئے گا۔
ہر مشہور تصویر، ہر بڑا شاہکار، ہر اچھی فلم، ہر مشہور ڈرامے کو دیکھنے والا اس کے اندر اپنا حصہ ڈھونڈ رہا ہوتا ہے، اپنی شکل دکھانے والے آئینے کی تلاش میں ہوتا ہے، جہاں زیادہ لوگ خود کو دیکھ سکیں بس وہ چیز ہٹ ہو جاتی ہے اور اس آئینے پہ سب سے بڑا روغن غم کا ہوتا ہے۔
تو اپنے جیسے لا- جواب آدمی، بے بس لوگ، صابر چہرے، غمگین شکلیں، اداس وجود، یہ سب آس پاس ہونے ضروری ہوتے ہیں۔
غم نے صرف سوال کرنا ہے، کرتے رہنا ہے، اکیلے میں اور زیادہ کرے گا، تنگ کرے گا، کوشش کریں، باہر نکلیں، اپنے جیسے چہرے ڈھونڈیں، ان سے بات کریں، یہی سوال ان سے پوچھ لیں۔
پھر ایک مرحلہ آئے گا کہ سوال کا جواب مل جائے گا۔ انہی چہروں پہ لکھا دیکھ دیکھ کے آپ کو سمجھ آ جائے گی۔ بس وہ لمحہ اس غم کی موت ہے۔
اگلی صبح نئی زندگی ہو گی، نئے غم ہوں گے، نئے سوال ہوں گے، بس چہرے آس پاس ہونے چاہئیں، ہر سوال کا جواب انسان ہے، غم میں اکیلے نہ رہنا ضروری ہے۔
سیانے کہہ گئے تھے کہ بندہ بندے دا دارو ہندا اے! (انسان کی دوا انسان ہی بنتا ہے۔)
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔