جیپ سے باندھے جانے والے فلسطینی سے خطرہ نہیں تھا: اسرائیلی فوج

سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں ایک فلسطینی نوجوان کو جیب کے بونٹ پر باندھ کر لے جایا جا رہا ہے جس کے بارے میں خیال ہے کہ انہیں اسرائیلی فوج نے بطور انسانی ڈھال استعمال کیا۔

24 سالہ مجاہد عبادی منگل 25 جون 2024 کو مغربی کنارے کے شہر جنین کے ابن سینا ہسپتال میں اسرائیلی فوجیوں کی جانب سے فوجی جیپ کے ہڈ پر پھینکے جانے کا تجربہ بیان کر رہے ہیں (اے پی)

جب مجاہد عبادی یہ دیکھنے کے لیے باہر نکلے کہ آیا اسرائیلی افواج ان کے چچا کے پڑوس میں داخل ہوئی ہیں تو ان کے بازو اور پاؤں پر گولیاں مار دی گئیں۔ یہ ان کی مصیبت کا صرف آغاز تھا۔

چند گھنٹوں کے بعد وہ شدید زخمی اور خون میں لت پت ایک اسرائیلی فوجی جیپ کے آگے بونٹ پر بندھے ہوئے تھے جو سڑک پر چل رہی تھی۔

اسرائیلی فوج نے ابتدائی طور پر کہا تھا کہ عبادی ایک مشتبہ عسکریت پسند تھے، لیکن بعد میں انہوں نے اعتراف کیا کہ ان سے اسرائیلی افواج کو کوئی خطرہ نہیں تھا اور وہ عسکریت پسندوں کے ساتھ فائرنگ میں پھنس گئے تھے۔

جیپ سے باندھے ہوئے 24 سالہ عبادی کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے جس کی امریکہ سمیت بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی۔ بہت سے لوگوں کا کہنا تھا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیلی فوجی انہیں انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے تھے — یہ الزام اسرائیل اکثر حماس پر لگاتا رہا ہے جس کے خلاف وہ غزہ میں لڑ رہا ہے۔

اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ اس واقعے کی تحقیقات کر رہی ہے اور یہ اس کی اقدار کی عکاسی نہیں کرتا لیکن فلسطینیوں نے اسے مقبوضہ مغربی کنارے پر اسرائیل کے کریک ڈاؤن میں ایک اور وحشیانہ کارروائی کے طور پر دیکھا، جہاں حماس کے سات اکتوبر کے حملے کے بعد غزہ میں جنگ شروع ہونے سے تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔

عبادی نے منگل کو ہسپتال کے بستر سے ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہفتے کو مغربی کنارے کے شورش زدہ شہر جنین میں اپنے چچا کے گھر سے باہر نکلے جب انہوں نے ہنگامے کی آواز سنی۔ انہوں نے کہا، ’میں یہ دیکھنے کے لیے باہر گیا کہ کیا ہو رہا ہے، اور پڑوسیوں کے گھروں کی طرف دیکھا، جہاں میں نے فوج کو دیکھا۔ جب میں نے گھر واپس آنے کی کوشش کی تو اچانک مجھ پر بہت زیادہ اور اندھا دھند فائرنگ شروع ہو گئی۔ میرے کزن جو میرے قریب تھے، ان کو بھی نشانہ بنایا گیا۔‘

بازو میں گولی لگنے کے بعد وہ اپنے خاندان کی گاڑی کے پیچھے چھپ گئے۔ اس کے بعد انہیں ایک بار پھر پاؤں میں گولی مار دی گئی۔ حرکت نہ کر پانے کی وجہ سے انہوں نے اپنے والد کو فون کیا اور بتایا کہ وہ مرنے والے ہیں۔ اپنے بیٹے کے ہسپتال کے بستر کے ساتھ کھڑے رائد عبادی نے کہا کہ ’میں نے ان سے کہا کہ وہ کوشش کریں کہ بے ہوش نہ ہوں اور مجھ سے بات کرتے رہیں۔ اچانک، کال منقطع ہو گئی۔‘

بعد میں رائد نے سوشل میڈیا پر جھوٹی خبریں دیکھی کہ اس حملے میں ایک فلسطینی جان سے گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’میں گر گیا کیونکہ مجھے 90 فیصد یقین تھا کہ یہ میرا بیٹا ہے۔‘ عبادی کی موت نہیں ہوئی تھی، لیکن ان کی تکلیف ابھی شروع ہوئی تھی۔

چند گھنٹوں کے بعد اسرائیلی فوجیوں نے انہیں ڈھونڈ لیا۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے ان کے سر اور چہرے پر اور ان جگہوں پر مارا جہاں انہیں گولی ماری گئی تھی۔ پھر انہیں ٹانگوں سے پکڑ کر گھسیٹا، انہیں ہاتھوں پیروں سے اٹھایا اور فوجی جیپ کے بونٹ پر پھینک دیا۔

انہوں نے کہا کہ ’تپش کی وجہ سے میں چیخا، پھر، ایک سپاہی نے مجھے گالیاں دینا شروع کر دیں اور مجھے خاموش رہنے کے لیے کہا۔‘

فوج کا کہنا ہے کہ اس کی فورسز نے عبادی کو جیپ کے بونٹ سے اس لیے باندھ تھا تاکہ انہیں پیرا میڈکس تک پہنچایا جا سکے۔ لیکن فلسطینی ہلال احمر کی ریسکیو سروس کے ترجمان نیبل فرسخ کا کہنا ہے کہ فوج نے علاقے کو سیل کر دیا تھا اور طبی عملے کو کم از کم ایک گھنٹے تک زخمیوں کی دیکھ بھال کرنے سے روکے رکھا۔

اے پی کو موصول ہونے والی ڈیش بورڈ کیمرے کی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ جس جیپ سے عبادی کو باندھا گیا تھا وہ کم از کم دو ایمبولینسوں کے پاس سے گزر رہی تھی۔ عبادی نے کہا کہ انہیں تقریبا آدھے گھنٹے تک جیپ سے باندھا گیا جس کے بعد فوجیوں نے انہیں کھول دیا اور پیرامیڈکس کے حوالے کر دیا۔

واشنگٹن ڈی سی میں محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا کہ یہ ویڈیو ’وحشت ناک‘ تھی۔

انہوں نے اسرائیلی فوج کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’عام شہریوں کو کبھی بھی انسانی ڈھال کے طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔ آئی ڈی ایف کو فوری طور پر تحقیقات کرنی چاہیے کہ کیا ہوا اور لوگوں کو ذمے دار ٹھہرایا جائے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسرائیل طویل عرصے سے حماس پر شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کا الزام عائد کرتا رہا ہے کیونکہ یہ عسکریت پسند غزہ کے گنجان آباد اور رہائشی علاقوں میں سرگرم ہیں۔ اس نے غزہ کے اندر بڑی تعداد میں اموات کا الزام حماس پر لگایا ہے، جہاں مقامی صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ جنگ کے آغاز سے اب تک 37 ہزار سے زائد فلسطینی جان سے گئے، تاہم یہ نہیں بتایا گیا اس میں عام شہری کتنے ہیں۔ حماس کے جس حملے سے جنگ شروع ہوئی اس میں تقریبا 1200 اسرائیلی مارے گئے تھے جن میں اکثریت عام شہریوں کی تھی۔

مغربی کنارے میں اسرائیلی افواج نے رات کے وقت چھاپے مارے ہیں، اکثر عسکریت پسندوں کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ ہوا اور 550 سے زائد فلسطینی جان سے گئے ہیں۔

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی دونوں علاقوں میں فوجی کارروائیوں کے دوران فلسطینیوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کی بذات خود ایک طویل تاریخ ہے، جس پر اس نے 1967 کی جنگ میں قبضہ کیا تھا اور جسے فلسطینی اپنی مستقبل کی ریاست کے لیے چاہتے ہیں۔

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی اسرائیلی تنظیم بی _ تسلیم کے مطابق کئی دہائیوں سے، فوج معمول کے مطابق فلسطینی شہریوں کو سڑکوں سے مشکوک اشیا ہٹانے اور لوگوں کو گھروں سے باہر آنے کا حکم دیتی ہے تاکہ فوج انہیں گرفتار کر سکے، جسے ’نیبر پروسیجر‘ کہا جاتا ہے۔

اسرائیل کی سپریم کورٹ نے 2005 میں فوج کو حکم دیا تھا کہ وہ فلسطینیوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال نہ کرے، لیکن انسانی حقوق کی تنظیمیں برسوں سے اس کی مثالیں پیش کرتی رہی ہیں۔2021 میں مغربی کنارے میں موجود اسرائیلی فوجیوں نے اے پی کے ایک فوٹوگرافر کو اس کی مرضی کے خلاف ایک ایسے علاقے میں اپنی حراست میں لیا جہاں فلسطینی پتھر پھینک رہے تھے اور فوجی آنسو گیس اور ربڑ کی گولیاں چلا رہے تھے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا