شمالی غزہ میں ہر طرف بکھرے ملبے کے بیچ البلوی خاندان نے اپنے گھر کے کھنڈر پر کمبلوں کی مدد خیمہ بنا رکھا ہے جو موسم گرما کی جھلسا دینے والی گرمی میں سایہ فراہم کرتا ہے۔
سات اکتوبر کے بعد تقریباً نو ماہ سے جاری اسرائیلی حملوں کے ماحول میں یہ خاندان جبالیہ پناہ گزین کیمپ میں اپنا پیٹ بھرنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔
غزہ کے مکینوں کو اسرائیل کی بمباری کے ساتھ ساتھ خوراک اور پانی سمیت اشیائے ضروریہ کی شدید قلت کا سامنا ہے جس کی وجہ سے ام سراج البلوی جیسی مایوس ماؤں کو اپنی بقا کی جنگ لڑنے پر مجبور ہیں جبکہ اسرائیلی جارحیت کے خاتمے کے آثار دکھائی نہیں دیتے۔
33 سالہ خاتون نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’کوئی پھل یا سبزی دستیاب نہیں۔ بیماری کی صورت میں خوراک نہیں ملتی۔ آپ کو صحت یاب ہونے کے لیے دو تین ہفتے بستر پر رہنا پڑتا ہے۔‘
’جنگ لازمی بند ہونی چاہیے کیوں کہ اس کی وجہ سے لوگ بے گھر ہو رہے ہیں اور تباہی پھیل رہی ہے۔‘
حالیہ ہفتوں کے دوران جبالیہ کو خاص طور پر شدید نقصان پہنچا ہے۔ اسرائیلی فوج نے شمالی غزہ میں زمینی کارروائی کے حصے کے طور پر بڑے پیمانے پر بمباری کی۔ قبل ازیں اسرائیلی فوج نے کہا تھا کہ علاقے میں حماس کا کنٹرول ختم ہو چکا ہے۔
’ایک خیمے سے دوسرے خیمے تک‘
اسرائیلی حملوں کی وجہ سے غزہ کی 24 لاکھ آبادی میں مایوسی بڑھی ہے۔ امدادی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ وہ امداد پہنچانے سے قاصر ہیں۔
غزہ میں امداد کی فراہمی کے لیے اہم راستہ کرم ابو سالم کی سرحدی گزر گاہ ہے جس کے فلسطینی حصے میں خوراک کی اہم رسد کا ڈھیر لگا ہوا ہے جسے تقسیم نہیں کیا جا سکا۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس نے رسد کی فراہمی کی اجازت دے دی ہے اور امدادی اداروں سے کہا ہے کہ وہ اس کی تقسیم تیز کریں۔ دوسری طرف اقوام متحدہ سمیت امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ وہ غزہ میں شہری نظم و نسق کی خرابی کی وجہ سے امدادی سامان نہیں اٹھا سکتیں۔
اسرائیلی بمباری اور زمینی کارروائی میں اب تک کم از کم 37 ہزار 598 فلسطینی جان سے جا چکے ہیں۔
غزہ کے مکینوں کی مشکلات میں اضافہ صرف اسرائیل کی بمباری کی وجہ سے ہوا ہے جس کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد حماس کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرنا ہے۔
ہفتے کو غزہ شہر کے دو مضافاتی علاقوں پر اسرائیل کے شدید حملوں کے نتیجے میں 24 لوگوں کی جان گئی۔ ان حملوں میں متعدد رہائشی عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن گئیں۔
ام سراج نے کہا کہ ’لوگ گھر سےگھر، خیمے سے خیمے، سکول سے سکول تک بے گھر ہو رہے ہیں۔
’انہوں (اسرائیل نے) لوگوں کو رفح کو خالی کرنے کی ہدایت کرنے سے پہلے انہیں رفح جانے کی ہدایت کی۔ وہ خان یونس میں بھی ایسا ہی کر رہے ہیں۔ کب تک؟‘
’کوئی گھر نہیں‘
البلوی خاندان کو انتہائی مشکل حالات کا سامنا ہے۔ اسے تباہ شدہ علاقے میں ملبے سے تکیے اور خوراک جیسی اشیا تلاش کرنی پڑی رہی ہیں۔
ام سراج کے 34 سالہ شوہر، ابو کا کہنا تھا کہ ’(جنگ سے پہلے) صورت حال بہت مشکل تھی۔ اور جنگ کے بعد حالات مزید خراب ہو گئے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے عمارتوں کے ملبے سے گلابی رنگ رنگ کا کشن نکال کر اسے بیوی کے حوالے کیا جنہوں نے اسے جھاڑا۔
ایک اور جگہ انہوں نے بیلچے کی مدد سے ملبہ ہٹایا اور کمسن بیٹے کے لیے ٹیڈی بیئر نکالا، اس کے بعد وہ اپنے بچوں کو ایک تباہ شدہ گلی میں لے جاتے ہیں تاکہ پانی حاصل کر سکیں، پھر اپنے خیمے میں واپس چلے جاتے ہیں جہاں ان کے بچے ایک پیالے سے کچھ روٹی اور پھلیاں بانٹتے ہیں۔
بعد ازاں وہ اپنے بچوں کو ساتھ لے کر تباہ شدہ سڑک چلتے ہوئے پانی لینے گئے جس کی بہت زیادہ ضرورت تھی۔ اس کے بعد خیمے میں لوٹے جہاں ان کے بچے پیالے سے کچھ روٹی اور پھلیاں کھا رہے تھے۔
’پانی اور خوراک کی قلت ہے۔ ہمیں اپنے بچوں کے مشکل سے ہی کچھ کھانے کو ملتا ہے۔ بیماریاں تمام علاقوں میں پھیل چکی ہیں جہاں بے گھر ہونے والے لوگ جمع ہیں۔‘
جوڑے کا نو سالہ بیٹا، سراج، کم عمری کے باوجود اسرائیلی حملوں کی ہولناکیوں کو سمجھتا ہے۔ بچے نے شکایت کہ ’ہمیں کپڑے نہیں ملتے۔ ہمارے پاس کوئی کپڑا نہیں۔‘
ٹوٹی پھوٹی گڑیا ہاتھ میں لیے بچے نے مزید کہا کہ ’کوئی کھلونا نہیں ہے۔ ہمارے پاس کوئی گھر نہیں۔‘