ایک منٹ کی خاموشی ان فوک گلوکاروں کے لیے جو سوشل میڈیا سے پہلے مر گئے

شہروں میں بیٹھ کر فوک گلوکاروں کی مقبولیت کا صحیح اندازہ لگانا ممکن ہی نہیں اس کے لیے گاؤں دیہات کا سفر کرنا اور نئی نسل کو دیکھنا ہو گا۔

منصور ملنگی، اللہ دتہ لونے والا اور طالب حسین درد، یہ سب آڈیو کیسٹ کے دور کے ہیں (پنجابی فوک میوزک/ یوٹیوب)

 اکثر دوستوں کو کہتے سنا کہ گورا کام کی چیز کبھی مفت نہیں دیتا۔ محض یوٹیوب کو ہی دیکھ لیں کہ اس نے ہمارا کتنا بڑا ثقافتی ورثہ ضائع ہونے سے بچایا۔ ہمارے لیے موسیقی سے بڑھ کر بھی کچھ ہے؟ پھر ہم گوروں کے شکر گزار کیوں نہیں ہوتے؟

نیو یارک کے ٹائمز سکوائر پر رواں ہفتے صحرائے تھر کی لوگ گلوکارہ مائی دھائی کی تصویر دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی۔ کہاں تھر کا خاک اڑاتا صحرا، کہاں نیو یارک کی نیلی پیلی روشنیاں اور مائی دھائی کی جگمگاتی تصویر۔

دیہی ثقافت سے تعلق رکھنے والے افراد نے شادی بیاہ پر عورتوں کو گاتے بجاتے سنا ہو گا۔ ان میں خواتین کا ایک ایسا طبقہ بھی شریک ہوتا ہے گانا بجانا جس کا پیشہ ہے۔ ہمارے ہاں انہیں ’نٹ‘ کہا جاتا ہے۔ کہیں انہیں ’مراثی‘ بولتے ہیں۔ صحرائے تھر میں انہیں ’منگہار فقیر‘ کہتے ہیں۔

یہ مختلف ہونے کے باوجود ایک جیسی زندگی گزارتے ہیں۔ ان میں فرق محض گانے کے انداز کا ہے جو مقامی ثقافتوں کے مطابق تبدیل ہوتا رہا، لیکن ان کی قسمت ہر جگہ ایک سی تھی۔

ہم نے گاؤں میں ان کے گھر دیکھے جو انتہائی خستہ حال تھے۔ ان کے بدن پہ صاف ستھرا لباس یا چہرے پہ خوشی کا رنگ کبھی نظر نہ آیا۔ بہت قصے کہانیاں عام تھیں۔

ہمارے ہاں نٹوں کے مرد فارغ رہتے، عورتیں دن رات کمائی کرتیں، نہ جانے کیسے کیسے استحصال سے گزرتے ہوں گے بیچارے۔

یہ منگہار فقیر، مراثی یا نٹ دراصل فوک گلوکاروں میں بھی سب سے نچلے طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ البتہ جہاں جہاں دربار تھے اور انہیں وہاں گانے بجانے کا موقع ملا، حالات قدرے بہتر رہے۔

آپ سوچیں انہی میں سے کسی کی تصویر ٹائمز سکوائر میں لگی ہو، وہ کوک سٹوڈیو کے گیت گا رہی ہو اور امریکہ میں جا کر پرفارم کرے، ہے نا قسمت۔ یہ سب سوشل میڈیا کی وجہ سے ممکن ہوا بھائی۔

ہمارے جانگلی علاقے میں جھنگ کے گلوکار بہت مشہور ہوئے۔ منصور ملنگی، اللہ دتہ لونے والا اور طالب حسین درد۔

یہ سب آڈیو کیسٹ کے دور کی پیدوار ہیں۔ منفرد انداز، تین چار ضلعوں میں پھیلی ہوئی اچھی خاصی آڈینس لیکن زندگی گزارے لائق گزری۔ تقریباً 50، 50 برس گانے کے باوجود خوش حالی نہ ان کے گھروں میں آئی نہ چہرے پر۔

ان کے مقابلے میں آج ان کی اولادوں کو دیکھیں جن کی گائیکی میں کوئی ساہ سواد نہیں لیکن کمائی اندھا دھن ہے۔

منصور ملنگی جیسی مٹھاس جانگلی اور سرائیکی علاقے میں شاید ہی کسی دوسرے گلوکار کو نصیب ہوئی ہو لیکن وہ ساری زندگی اتنے پیسے نہ کما سکے جتنے ان کا بیٹا مجاہد منصور ملنگی انہی کا محض ایک گیت دوبارہ گا کر کما رہا ہے۔ 

ان کے بیٹے کی آواز میں ’جیڑا سامنے دیسندا اوہو گھر ہے بے وفا دا‘ کو محض یوٹیوب پر ایک کروڑ 70 لاکھ مرتبہ سنا جا چکا ہے۔

تصور کریں اگر سوشل میڈیا منصور ملنگی کے دور میں ہوتا تو ان کی زندگی کتنی آسان ہوتی۔

کوک سٹوڈیو ایسا پلیٹ فارم ثابت ہوا جس سے اڑان بھرنے والے فنکار راتوں رات پورے ملک میں مشہور ہو گئے۔ 

اس کی بہترین مثال ظہور لوہار ہیں جن کا ’دل کتھے کھڑایا او بھولیا‘ شہروں میں بسنے والی ممی ڈیڈی کلاس تک مقبول ہوا۔ ظہور لوہار گائیکی میں طالب حسین درد کا انداز کاپی کرتا ہے اور یہ انتہائی سستی کاپی ہے۔

طالب کی آواز میں لچک، ورائٹی اور سوز کا ٹھاٹھیں مارتا دریا تھا۔ لیکن ظہور لوہار محض ایک گیت کی وجہ سے کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔

پرانے گلوکاروں کے سوشل میڈیا پر کئی کئی پیجز ہیں اور ان کی ویڈیوز آج لاکھوں میں دیکھی جا رہی ہیں۔ دیہات کے ان پڑھ نوجوان ٹک ٹاک پر ویڈیو لگانے کا ہنر جان چکے ہیں۔ وہ انہیں گلوکاروں کے پرانے گیت استعمال کرتے ہوئے اپنے جذبات کو آواز دیتے ہیں۔

غربت میں زندگی گزارنے والے یہ لوک گلوکار آج نئی شہرت نئی پہنچان سے ہم کنار ہو رہے ہیں۔ کم مشکل یا زیادہ مشکل جیسی بھی زندگی تھی وہ جی کر رخصت ہو چکے۔

اب کیا یہ کافی نہیں کہ ان کا فن ضائع ہونے سے بچ گیا؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان سے پہلے بھی تو فنکار تھے؟ کیا ان کی زندگیاں آسان تھیں؟ انہیں موت کے بعد بھی شناخت نہ مل سکی کیونکہ وہ انہیں لوگوں تک پہنچے جنہوں نے سامنے بیٹھ کر سنا۔ وہ خود رخصت ہوئے، انہیں سامنے بیٹھ کر سننے والے رخصت ہوئے، ان کا فن اور شناخت پلک جھپکنے میں غائب ہو گئی۔ 

آڈیو کیسٹ اور سی ڈی والی نسلوں کو یوٹیوب نے سنبھال لیا، ان سے پہلوں کے نام تک باقی نہ رہے۔ ایک منٹ کی خاموشی ان لوک گلوکاروں کے لیے جو سوشل میڈیا کی آمد سے پہلے مر گئے۔

آپ پچھلی نسل کے لوک گلوکاروں کا کوئی گیت سرچ کیجیے، یوٹیوب ایک سے زیادہ ورژن آپ کے سامنے رکھ دے گا۔ بہت پہلے کے ایسے بھی گلوکار ہو گزرے جن کا محض ایک آدھ گیت یوٹیوب تک پہنچا۔ 

کوئی بات نہیں، مصنوعی ذہانت کی مدد سے ان کے سینکڑوں نئے ریکارڈ تیار کر لیجیے۔ سوشل میڈیا لوک ورثے کی حفاظت ہی نہیں کر رہا بلکہ اسے نئے سر سے تخلیق بھی کر رہا ہے۔

مائی دھائی کی روایتی طور پر کتنی آڈینس ہو گی؟ یوٹیوب پر ایک ویڈیو میں حلیم عادل شیخ ان کے ساتھ بیٹھے ہیں، عمران خان کی تصویر پکڑ رکھی ہے اور ان کے بارے میں ڈھاٹکی زبان میں کوئی گیت ریکارڈ کروا رہے ہیں۔

گانے بجانے والیوں کی قسمت تبدیل ہوئی کہ نہیں؟ 

لوک فنکار زمانے کی نبض جانتے ہیں، ملکو نے کس شاندار طریقے سے عمران خان کی مقبولیت کو اپنے حق میں استعمال کیا۔ پہلے قیدی 804 کا محض ایک ٹپہ گا کر حالات کا جائزہ لیا، پھر پورا گیت گا کر لاکھوں کمائے۔

اب اسی انداز میں ’فوجی کوکا‘ مارکیٹ میں پھینکنے کی تیاری ہے۔ آپ کے چاہنے والے تو ہیں ہی آپ کے مخالفین بھی آپ کی ویورشپ میں اضافہ کریں گے۔ 

ملکو تقریباً 20 برس سے گا رہا ہے، دیکھیں سوشل میڈیا نے انہیں کیسے راتوں رات سٹار بنا دیا۔ 

شہروں میں بیٹھ کر فوک گلوکاروں کی مقبولیت کا صحیح اندازہ لگانا ممکن ہی نہیں اس کے لیے گاؤں دیہات کا سفر کرنا اور نئی نسل کو دیکھنا ہو گا۔ ہمارے بڑے بوڑھوں کی زندگیاں ملنگی، لونے والا اور درد کے بغیر نامکمل تھیں جنہیں وہ سارا سارا دن سنتے مگر کہتے اور سمجھتے ’مراثی‘ ہی تھے۔ 

آج کی نوجوان نسل اس حقارت آمیز رویے سے واقف نہیں، ان کے لیے فوک گلوکار کسی ہیرو سے کم نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی موسیقی