’پہاڑ قبرستان بن جائیں گے‘: لاشیں اگلتا ماؤنٹ ایورسٹ کا ’ڈیتھ زون‘

نیپال میں ماؤنٹ ایورسٹ اور اس سے ملحقہ چوٹیوں لوٹسے اور نپٹسے کی صفائی مہم کے دوران اب تک پانچ نامعلوم منجمد لاشیں برآمد کی جا چکی ہیں جن میں سے ایک کی صرف ہڈیاں باقی تھیں۔

ماؤنٹ ایورسٹ کی پرخطر ڈھلوانوں پر آب و ہوا کی تبدیلی برف کو پگھلا رہی ہے، جس سے ان سینکڑوں کوہ پیماؤں کی لاشیں سامنے آ رہی ہیں جو دنیا کی سب سے اونچی چوٹی سر کرنے کے اپنے خواب کا تعاقب کرتے ہوئے مارے گئے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق رواں سال ہمالیہ کی بلند ترین چوٹی کو سر کرنے والوں میں وہ ٹیم بھی شامل تھی جس کا مقصد آٹھ ہزار 849 میٹر (29،032 فٹ) چوٹی سر کرنا نہیں تھا، بلکہ انہوں نے کچھ لاشوں کو نیچے لانے کے لیے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالا۔

نیپال میں ماؤنٹ ایورسٹ اور اس سے ملحقہ چوٹیوں لوٹسے اور نپٹسے کی صفائی مہم کے دوران اب تک پانچ نامعلوم منجمد لاشیں برآمد کی جا چکی ہیں جن میں سے ایک کی صرف ہڈیاں باقی تھیں۔

یہ ایک مشکل اور خطرناک کام ہے

امدادی کارکنوں کو کلہاڑیوں کی مدد سے برف ہٹانے میں کئی گھنٹے لگتے ہیں اور کبھی کبھار ٹیم کو برف کی جمی ہوئی پکڑ چھڑوانے کے لیے ابلتا ہوا پانی استعمال کرنا پڑتا ہے۔

نیپال کی فوج کے ایک میجر آدتیہ کارکی، جنہوں نے اس مہم کے دوران 12 فوجی اہلکاروں اور 18 کوہ پیماؤں کی ٹیم کی قیادت کی، نے کہا کہ ’گلوبل وارمنگ کے اثرات سے، برف پگھلنے کے باعث (لاشیں اور کوڑا کرکٹ) زیادہ نظر آ رہے ہیں۔‘

سنہ 1920 کی دہائی میں مہمات شروع ہونے کے بعد سے اب تک اس پہاڑ پر 300 سے زائد افراد جان سے گئے، جن میں سے آٹھ صرف رواں سیزن میں مارے گئے۔

تاہم ابھی یہاں بہت سی لاشیں باقی ہیں جن میں سے کچھ برف میں چھپی ہوئی ہیں یا گہری کھائیوں میں ہیں۔

جب کہ کچھ اب بھی اپنے کوہ پیمائی کے رنگین لباس میں چوٹی کے راستے میں ایک سنگ میل بن چکی ہیں۔ ان میں سے کچھ ’گرین بوٹس‘ اور ’سلیپنگ بیوٹی‘ کے ناموں سے جانی جاتی ہیں۔

’ڈیتھ زون‘

کارکی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’اس کا نفسیاتی اثر ہوتا ہے۔ لوگوں سمجھتے ہیں کہ جب وہ پہاڑوں پر چڑھتے ہیں تو وہ کسی روحانی جگہ میں داخل ہو رہے ہوتے ہیں، لیکن اگر وہ اوپر جاتے ہوئے لاشیں دیکھ لیں تو اس کے منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔‘

ان میں سے بہت سی لاشیں ’ڈیتھ زون‘ میں ہیں، جہاں ہوا کے کم دباؤ اور آکسیجن کی کم مقدار کے باعث ایلٹی ٹیوڈ سکنیس کا خطرہ بڑھا جاتا ہے۔

کوہ پیماؤں کے پاس انشورنس ہونا ضروری ہے، لیکن بچاؤ یا ریکوری کا کوئی بھی مشن خطرے سے بھرپور ہے۔

کوہ پیماؤں میں سے ایک کی لاش جو دھڑ تک برف میں دبی ہوئی تھی کو نکالنے میں ریسکیو ٹیم کو 11 گھنٹے لگے۔

ٹیم کو اسے نرم کرنے کے لیے گرم پانی کا استعمال کرنا پڑا اور اپنی کلہاڑیوں سے برف کو کھود کر اسے باہر نکالنا پڑا۔

اس لاش کو نکالنے کی مہم کی قیادت کرنے والے شیرنگ جنگبو شیرپا نے کہا کہ ’یہ انتہائی مشکل ہے۔ لاش کو باہر نکالنا اس کس ایک حصہ ہے، جبکہ اسے نیچے لانا ایک اور مشکل ہے۔‘

شیرپا نے کہا کہ کچھ لاشیں اب بھی تقریباً ویسی ہی دکھائی دیتی ہیں جیسا کہ موت کے وقت تھیں -- پورے لباس میں ملبوس، حفاظتی اور کوہ پیمائی سامان کے ساتھ۔

ایک لاش ایسی لگ رہی تھی جیسے اس کو کسی نے چھوا بھی نہیں، صرف ایک دستانہ غائب تھا۔

انتہائی بلندی سے لاشوں کو لانا کوہ پیما برادری کے لیے ایک متنازع موضوع ہے۔ اس پر ہزاروں ڈالر خرچ ہوتے ہیں اور ہر لاش کے لیے آٹھ امدادی کارکن درکار ہوتے ہیں۔

ایک لاش کا وزن 100 کلوگرام (220 پاؤنڈ) سے زیادہ ہو سکتا ہے اور زیادہ اونچائی پر، ایک شخص کی بھاری بوجھ اٹھانے کی صلاحیت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔

’پہاڑ قبرستان بن جائیں گے‘

لیکن کارکی کا کہنا ہے کہ بچاؤ کی کوشش ضروری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’جتنی ممکن ہو سکیں ہم نے لاشیں واپس لانی ہیں۔ اگر ہم انہیں پیچھے چھوڑتے رہے، تو ہمارے پہاڑ قبرستان میں تبدیل ہو جائیں گے۔‘

لاشوں کو اکثر ایک بیگ میں لپیٹا جاتا ہے اور پھر گھسیٹ کر نیچے لانے کے لیے پلاسٹک کے سلیج پر ڈال دیا جاتا ہے۔

شیرپا نے کہا کہ دنیا کی چوتھی بلند ترین چوٹی لوٹسے کی آٹھ ہزار 516 میٹر چوٹی کے قریب سے ایک لاش کو نیچے لانا اب تک کا سب سے مشکل چیلنج تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’جسم منجمد تھا اور ہاتھ اور ٹانگیں الگ ہو چکے تھے۔ ہمیں اسے کیمپ تھری میں لے جانا پڑا اور اس کے بعد ہی اسے نیچے لانے کے لیے ایک سلیج پر ڈالا جا سکتا تھا۔‘

نیپال کے محکمہ سیاحت کے عہدیدار راکیش گرونگ نے کہا کہ ابتدائی طور پر دو لاشوں کی شناخت کر لی گئی ہے اور حکام حتمی تصدیق کے لیے ’تفصیلی ٹیسٹ‘ کا انتظار کر رہے ہیں۔

حالیہ دنوں میں لائی گئی یہ لاشیں اب دارالحکومت کھٹمنڈو میں موجود ہیں، جن کی شناخت نہیں ہوئی تاہم امکان ہے کہ ان کی آخری رسومات ادا کر دی جائیں گی۔

’لاپتہ کوہ پیما‘

واپس لانے کی کوششوں کے باوجود، یہ پہاڑ اب بھی اپنے راز رکھتا ہے۔

برطانوی کوہ پیما جارج میلوری، جو 1924 میں چوٹی پر چڑھنے کی کوشش کے دوران لاپتہ ہوگئے تھے، کی لاش 1999 میں ملی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے کوہ پیما ساتھی اینڈریو اروین کبھی نہیں ملے اور نہ ہی ان کا کیمرہ ملا، جو ایک کامیاب مہم کا ثبوت فراہم کر سکتا ہے جس سے کوہ پیمائی کی تاریخ دوبارہ لکھی جا سکتی ہے۔

چھ لاکھ ڈالر سے زائد کے بجٹ کی اس صفائی مہم میں 171 نیپالی گائیڈز اور پورٹرز کو بھی شامل کیا گیا تاکہ 11 ٹن کچرا واپس لایا جا سکے۔

برف میں کام کرنے والے رنگین خیمے، کوہ پیمائی میں مدد کے لیے استعمال ہونے والے ٹوٹے ہوئے آلات، گیس کے خالی کنستر اور یہاں تک کہ انسانی فضلہ بھی چوٹی کی طرف جانے والے راستے پر پھیلا ہوا ہے۔

شیرپا کا کہنا ہے کہ ’پہاڑوں نے ہم کوہ پیماؤں کو بہت سارے مواقع دیے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ہمیں بھی انہیں واپس دینا چاہیے، ہمیں پہاڑوں کو صاف کرنے کے لیے کچرا اور لاشیں ہٹانی ہوں گی۔‘

آج کے دور میں اوپر جانے والی مہمات پر دباؤ ہے کہ وہ اپنے ساتھ جانے والے سامان کا کچرہ ہٹائیں، لیکن گذشتہ مہمات کا کچرا باقی ہے۔

کارکی کہتے ہیں کہ ’ہو سکتا ہے کوہ پیما اس سال کا کچرا واپس لے آئیں۔ لیکن پرانا کچرا کون لائے گا؟‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات