نادر شاہ 1739 میں ہندوستان پر حملہ آور ہوا تو اس وقت ہندوستان دنیا کا امیر ترین ملک تھا۔ اکبر اور اورنگ زیب عالمگیر کے عہد تک ہندوستان دنیا کی مجموعی پیداوار کا 27فیصد پیدا کرتا تھا۔
امریکہ آج کی تاریخ میں دنیا کی مجموعی پیداوار کا تقریباً 25 فیصد پیدا کرتا ہے۔ یہ اسی زمانے کی بات ہے جب ہندوستان دنیا بھر میں سونے کی چڑیا کے طور پر مشہور ہوا، لیکن پھر مغل سلطنت تخت و تاج کی پے در پے جنگوں میں الجھ گئی۔
اورنگ زیب عالمگیر کی 1707 میں وفات کے بعد صرف 12 سال میں تین بادشاہ بدلے گئے۔ کمزور ہوتی مغل سلطنت کی کمزوریاں سب پر عیاں ہوئیں تو بیرونی حملہ آوروں نے بھی راستہ دیکھ لیا۔
اس کے بعد جو دن بھی آیا مغل سلطنت سکڑتی چلی گئی۔ نادر شاہ کے حملے نے تو گویا دلی کو اجاڑ کر رکھ دیا۔
نادر شاہ ہندوستان پر کیوں حملہ آور ہوا؟
1736 میں جب نادر شاہ ایران کا بادشاہ بنا تو دلی کے تخت پر محمد شاہ المعروف رنگیلا کو برسر اقتدار ہوئے 17 برس گزر چکے تھے۔
1737 میں نادر شاہ نے اپنا ایک سفیر مغل دربار میں بھیجا، جس کا مقصد مغلوں کو نادر شاہ کے باغی افغان سرداروں کو پناہ دینے سے روکنا تھا۔
مگر نادر شاہ کے سفیر کو کئی ماہ تک محمد شاہ نے اپنے دربار میں ملاقات کا شرف ہی نہیں بخشا اور جب ملاقات کے لیے بلایا بھی تو اس کے ساتھ توہین آمیز سلوک کیا گیا۔
نادر شاہ افغان باغیوں کی سرکوبی کرتے ہوئے قندھار فتح کر چکا تھا۔ اسے مغل دربار میں اپنے سفیر کی بے عزتی پر بہت رنج تھا چنانچہ وہ شیر کی طرح دھاڑتا ہوا ہندوستان پر چڑھ دوڑا۔
راستے میں جو شہر اور بستی آئی وہ نادر شاہ کے غیظ و غضب سے بچ نہیں سکی۔
دلی میں قتل عام کیوں ہوا؟
مغلوں نے دلی سے 120کلومیٹر پہلے کرنال میں نادر شاہ کے لیے میدان جنگ کا انتخاب کیا، جہاں نادر شاہ کے مقابلے میں دوگنی مغل فوج مقابلے پر آئی۔
24 فروری، 1739 میں جنگ ہوئی تو صرف تین گھنٹے میں نادر شاہ کی فوج نے 30,000 مغل فوجی مار دیے۔ مغل فوج نے اپنی ہی زمین پر ہتھیار ڈال دیے۔
لاک ہارٹ اپنی کتاب ’نادر شاہ‘ میں لکھتے ہیں کہ قریب تھا کہ نادر شاہ کرنال سے ہی بھاری تاوان لے کر واپس ایران چلا جاتا مگر مغل فوج کی باہمی چپقلش کی وجہ سے اسے مشورہ دیا گیا کہ تاوان کی یہ رقم بہت معمولی ہے اگر وہ دلی چلا جائے تو وہاں مال و دولت کے انبار لگے ہوئے ہیں۔
نادر شاہ جب 20 مارچ، 1739 میں ایک فاتح کی حیثیت سے دلی میں داخل ہوا تو اس کا شایان شان استقبال ہوا۔
ایک سو ہاتھی اس کے جلوس کی قیادت کر رہے تھے اور ہر ہاتھی پر اس کی خصوصی دستے تعینات تھے۔
فاتح بادشاہ کا قافلہ جب شاہی قلعہ پہنچا تو توپوں کے گولے داغ کر اسے سلامی دی گئی۔ اگلے دلی میں عید الا ضحی ٰتھی۔
دہلی کی مساجد میں نمازِ عید کا خطبہ نادر شاہ کے نام پر پڑھا گیا۔ شام کو نادر شاہ، محمد شاہ کو عید کی مبارک باد دینے محل میں گیا۔
اسی دوران شہر میں افواہ پھیل گئی کہ نادر شاہ کو قتل کر دیا گیا ہے۔ افواہ کے پھیلتے ہی شہر میں نادر شاہ کے سپاہیوں کا قتل شروع ہو گیا۔
محمد شاہ کے منصب داروں اور امرا نے بھی اس قتل و غارت کو روکنے میں سرگرمی نہیں دکھائی۔
اس طرح شہریوں نے تین سے سات ہزار کے قریب ایرانی سپاہی قتل کر دیے۔ یہ قتل وغارت رات بھر جاری رہی۔
اگلی صبح جب نادر شاہ اپنے محافظوں کے ساتھ شہر کی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے نکلا تو چاندنی چوک میں اس پر کسی نے فائر کر دیا جس سے اس کا ایک عہدے دار مارا گیا۔
نادر شاہ اس پر بہت غصے میں آ گیا اور اس نے جامع مسجد کی چھت پر کھڑے ہو کر حکم دیا کہ جس محلے میں ایک بھی قزلباش سپاہی مارا گیا ہو وہاں کوئی بھی شہری زندہ نہیں بچنا چاہیے۔
اس کے بعد نادر شاہ کی فوجوں نے شہر میں قتل و غارت کا بازار گرم کر دیا۔
دہلی میں اس قتل عام میں کتنے لوگ لقمہ اجل بنے اس کی درست تعداد تو معلوم نہیں لیکن مؤرخین اسے 20 ہزار سے چار لاکھ کے درمیان بیان کرتے ہیں۔
دلی سے کیا کچھ نادر شاہ کے ہاتھ آیا؟
جیمز فریزر کی کتاب ‘History of Nadir Shah‘ میں، جو 1742 میں لندن سے شائع ہوئی، لکھا گیا کہ نادر شاہ نے دلی سے جو کچھ لوٹا اسے واپس ایران لانے کے لیے 1,000 ہاتھی، 10,000 اونٹ اور7,000 گھوڑے استعمال کیے گئے۔
مال و اسباب اتنا زیادہ تھا کہ اس نے ایران جا کر تین سال کے لیے رعایا کے تمام ٹیکس معاف کر دیے۔
اس خزانے کی تفصیلات درج ذیل ہیں :
شاہی خزانے سے لوٹے گئے ہیرے جواہرات کی مالیت: 25 کروڑ انڈین روپے
تخت ِ طاؤس: نو کروڑ انڈین روپے
سونے اور چاندی کے سکے: 25 کروڑ انڈین روپے
سونے اور چاندی کے برتن: پانچ کروڑ انڈین روپے
ریشمی و قیمتی ملبوسات: دو کروڑ انڈین روپے
گھریلو فرنیچر، مصوری کی شاہکار تصاویر اور استعمال کی چیزیں: تین کروڑ انڈین روپے
قیمتی ہتھیار: ایک کروڑ انڈین روپے
یہ کل ملا کر اُس وقت کے تقریباً 70 کروڑ انڈین روپے بنتے ہیں۔ معاشی ماہرین کے مطابق اس پیسے کی موجودہ دور کی مالیت کا اندازہ لگانا ہو تو یہ آج کے حساب سے 30 ارب ڈالر کی رقم بنتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بعض مبصرین کہتے ہیں کہ اتنی مالیت تو صرف ہیرے جواہرات کی تھی، مجموعی مالیت تو 100 ارب ڈالر سے بھی زیادہ کی بنتی ہے۔
صرف تخت طاؤس ہی اتنا قیمتی تھا کہ شاہجہان کے دور میں اسے بنایا گیا تو اس پر تاج محل سے دوگنی لاگت آئی۔
نادر شاہ کوہ نور ہیرا بھی ساتھ لے گیا۔ اس کی موجودہ مالیت تقریباً 12 ارب ڈالر کے قریب ہے۔
جو ہیرے جواہرات نادر شاہ اپنے ساتھ ایران لے گیا ان میں دنیا کا بیش قیمت کوہ نور بھی تھا، جس کا وزن 105.6 قیراط تھا۔
189.6قیراط کا اورلوف ہیرا جو آدھے انڈے جیسا ہے اور جس میں سبز رنگ کی دھاریاں بنی ہوئی ہیں، یہ آج کل ڈائمنڈ فنڈ ماسکو کی ملکیت ہے۔ 88.7 قیراط کا شاہ ہیرا بھی اسی فنڈ کے پاس ہے۔
گولکنڈہ ہیرا کا وزن 95.4 قیراط ہے اور یہ آج کل ملبرن آسٹریلیا میں ہے۔
182قیراط کا دریائے نور، 115قیراط کا تاج ماہ اور 60 قیراط کو نو ر الامین ہیرا یہ تینوں اس وقت ایران کے مرکزی بینک کے پاس ہیں۔
54 قیراط کا شاہجہان ہیرا کویت کے شیخ نصیر الصباح کے پاس ہے۔ 73.6 قیراط کا اکبر شاہ ہیرا اس وقت انڈیا کی برودہ فیلی کی ملکیت ہے۔
361 قیراط کا تیموری یاقوت بھی برطانیہ کے شاہی خاندان کی ملکیت ہے۔