میر تقی میر سے جب لکھنو والوں نے پوچھا کہ آپ کہاں سے آئے تو انہوں نے جو جواب دیا وہ ہماری ادبی اور شعری تاریخ کا حصہ بن گیا ہے:
جس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے
میر تو نادر شاہ اور احمد شاہ ابدالی کے ہاتھوں دلی کی تباہی کا ذکر کر رہے تھے، لیکن دلی ایک نہیں، بار بار اجڑی ہے۔ لیکن اب کے اس کے اجڑنے کی وجہ کسی بیرونی دشمن کا حملہ نہیں بلکہ ایک نہ دکھائی دینے والے وائرس کی یلغار ہے، لیکن اس کا اثر وہی ہو رہا ہے جیسے کسی لشکرِ جرار کی تباہ کاری کا۔
اس صورتِ حال پر دل بہت اداس ہے۔ یہی بات ایک دوست سے کہی تو اس نے پوچھا، ’اس وبا نے تو پوری دنیا کو ہی اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے اور کتنے ہی لوگوں کو اس کی وجہ سے جان سے جانا پڑ رہا ہے تو پھر دلی کے حال پر ہی زیادہ اداسی کیوں؟‘
میں نے کہا، ’اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہاں سے کچھ دور ہی وہ علاقہ ہے جہاں میرے آبا و اجداد رہتے رہے ہیں، اس لیے شاید دلی کے ساتھ ایک خاص لگاؤ سا ہے۔ دوسرا اردو شاعری اور نثر میں دلی کا اتنا ذکر ہوا ہے کہ یہ شہر اپنا اپنا سا لگتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب وہاں کرونا نے طوفان برپا کیا تو میں نے وہاں اپنی ایک جاننے والی خاتون ایشوتی سے رابطہ کیا۔ انہوں نے جو کہانیاں سنائیں وہ قیامت کا منظر دکھاتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے زندگی بھر ایسی تباہی نہیں دیکھی۔ ان کے اپنے خاندان اور حلقۂ احباب میں روزانہ اتنے لوگ مر رہے ہیں کہ وہ اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ بند کرنے پر مجبور ہو گئی ہیں کیوں کہ ہر طرف موت کا رقص دیکھ کر اور اس بارے میں لگاتار خبریں سن کر ان کی ہمت جواب دے گئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایشوتی نے بتایا کہ وہ دلی کے جس علاقے میں رہتی ہیں وہاں پر تین شمشان گھاٹ ہیں ان میں جگہ کم پڑ گئی ہے اور جگہ جگہ عارضی شمشان گھاٹ بنانے پڑ گئے ہیں۔ وہاں پر ہر وقت جاری آخری رسومات کی وجہ سے فضا میں ایک عجیب سی بو رچ بس گئی ہے۔
یہی حال قبرستانوں کا ہے۔ وہاں پر بھی میتیں دفنانے کے لیے جگہ نہیں رہی۔
میں نے اس سے پوچھا کہ یہ سب اچانک کیسے ہوا؟ تو اس نے بتایا کہ ہم تو بہت سکون میں تھے کہ کیسز کم ہو رہے ہیں، ویکسین کے آجانے سے بھی ہمیں یہی لگ رہا تھا کہ آنے والے وقت میں صورت حال مزید بہتر ہوجائے گی۔ مگر حکومت کی نااہلی اور عوام کی لاپروائی کی وجہ سے ایسے لگا کہ جیسے ایک آفت اس شہر پر ٹوٹ پڑی ہے۔ مودی سرکار نے ویکسین پر تو بھرپور توجہ دی لیکن آکسیجن کی فراہمی پر کوئی توجہ نہ دے سکی۔ آکسیجن بنانے کےلیے جتنے کارخانے لگانے کی منظوری دی گئی تھی وہ لگائے ہی نہیں گئے۔ خاص طور پر دلی میں تو اس پر بالکل عمل درآمد نہ ہوا۔
یہی وجہ ہے جب ہسپتالوں میں آکسیجن کی کمی ہوئی تو لوگوں کے پیارے ان کے سامنے دم توڑتے رہے۔ دوسرا حکومت کے بار بار کہنے کے باوجود بھی عوام نے حفاظتی تدابیر کو بالکل بھی نہیں اپنایا۔ یہاں تک کہ اب بھی اس خوف ناک صورت حال میں بھی کئی لوگ احتیاط سے کام نہیں لے رہے ہیں۔ پھر ان حالات میں حکومت کا کمبھ میلے کی اجازت دینا بہت غلط فیصلہ تھا کیونکہ 10 مارچ سے11 اپریل کے درمیان ایک اندازے کے مطابق 24 لاکھ لوگوں نے اس میلے میں حصہ لیا۔
جب وہ اپنے اپنے علاقوں میں واپس گئے تو کورونا کا وائرس ساتھ لے کر گئے۔ یہی وجہ ہے کہ اب کرونا بڑے شہروں سے چھوٹے شہروں میں بھی پھیل رہا ہے۔
ایشوتی کے مطابق آکسیجن کی فراہمی کے حوالے سے تو اب صورت حال کافی بہتر ہو گئی ہے لیکن پھر بھی اموات میں کمی نہیں آ رہی۔ جو بھی اعداد و شمار محکمہ صحت کی طرف سے جاری کیے جا رہے ہیں اموات کی تعداد ان سے زیادہ ہے کیونکہ وہ صرف ہسپتالوں سے ہی سارا ڈیٹا حاصل کر رہے ہیں مگر جن لوگوں کی گھروں میں اموات ہورہی ہیں وہ اس میں شامل نہیں ہیں اور وہ بھی کم تعداد میں نہیں ہیں۔
ایشوتی کو بالی وڈ کے کچھ اداکاروں اور امیر لوگوں پر بھی غصہ تھا جو اس مشکل صورت حال میں اپنے ملک سے باہر چلے گئے اور وہاں پر لطف اندوز ہوتے ہوئے پائے گئے۔
اس کے ساتھ اس نے ملک میں جاری انڈین پریمیئر لیگ کے منتظمین پر بھی کڑی تنقید کی کہ کس طرح ایک طرف روزانہ ہزاروں لوگ موت کے منہ میں جارہے اور وہ اس کے باوجود پیسے کی وجہ سے کرکٹ کا ٹورنامنٹ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسے تو غالباً کھلاڑیوں میں کورونا کے کیسز کے باعث ابھی منسوخ کردیا گیا ہے۔ ایشوتی نے لیکن یہ بھی بتایا کہ اس ساری مشکل صورت حال میں کچھ اچھی چیزیں بھی نظر آئی ہیں۔ مثلاً دلی میں امیر اور غریب کا فرق ختم ہوگیا ہے۔ اور وہاں کے وہ بڑے بڑے پرائیویٹ ہسپتال جو عام طور پر علاج کے لیے لاکھوں روپے لیتے تھے اور جہاں عام آدمی جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا وہاں اب امیر لوگوں کے ساتھ ان عام لوگوں کا بھی علاج ہو رہا ہے۔
اسی طرح اس نے بتایا کہ وبا کی اس بدترین لہر نے ذات، پات، مذہب کی اہمیت کو بھی کافی حد تک کم کر دیا ہے۔ دلی میں کہیں پر ہندوؤں کی آخری رسمیں مسلمانوں نے ادا کی ہیں اور کہیں پر مسلمانوں کو ہندوؤں نے دفنایا ہے۔ یہی حال بیمار لوگوں کو ہسپتالوں میں منتقل کرنے کا ہے۔ ابھی بس جان بچانے کی فکر کی جا رہی ہے۔ یہ نہیں دیکھا جا رہا کہ وہ برہمن ہے، دلت ہے، عیسائی ہے یا مسلمان۔
ایشوتی نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ اس وبا کے بعد بھی کاش لوگوں کا آپس میں رویہ ایسے صرف انسانیت کی بنیاد پر ہی ہو۔ میں نے اسے کہا کہ اگر ایسا تو ہوجائے تو واقعی کتنا اچھا ہو۔
ایشوتی نے مجھے کہا کہ کرونا کی اس وبا سے بچنے کا بس ایک ہی طریقہ ہے کہ احتیاط کی جائے اس لیے ہمیں مکمل احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا چاہیے ورنہ لوگوں کی لا پرواہی اور حکومت کی نا اہلی کی وجہ سے جس قیامت صغریٰ سے وہ گزر رہے، خدا نہ کرے اس کا سامنا ہمیں بھی کرنا پڑے۔
میں نے کہا کہ اس معاملے میں تو ہم بھی ان جیسے ہی ہیں، یہاں پر بھی حکومت کی کارکردگی سب کے سامنے ہے اور عوام لاپروا اور شعور سے عاری ہیں۔ اس دوسران بس امید ہی جا سکتی ہے کہ ایسا کچھ یہاں پر نہ ہو۔
دلی سے آنے والی خبروں نے میرے جیسے بہت سے پاکستانیوں کو اداس کر دیا ہے۔ اس مشکل کی گھڑی میں ہم بھی دعاگو بھی ہیں کہ پورے ہندوستان اور خاص طور پر پیارے دلی کی خیر ہو، اور اس شہرِ انتخاب کی وہی صورت دوبارہ دکھائی دے جو میر کہہ گئے تھے:
دلی کے نہ تھے کوچے اوراقِ مصور تھے
جو شکل نظر آئی تصویر نظر آئی