دوحہ اجلاس عالمی پابندیوں پر تعمیری بات چیت کا اہم موقع ہے: ذبیح اللہ مجاہد

طالبان حکومت کے وفد کے سربراہ ذبیح اللہ مجاہد نے دوحہ میں جاری تیسرے اجلاس کی افتتاحی تقریب میں کہا کہ کابل کی شرکت اس بات کا ثبوت ہے کہ ’امارت اسلامیہ‘ مثبت اقدامات کے لیے پرعزم ہے۔

اقوام متحدہ کی زیر قیادت تقریباً دو درجن ممالک پر مشتمل دو روزہ کانفرنس اتوار کو قطر میں شروع ہوئی (بی این اے)

افغانستان کی عبوری طالبان حکومت کے وفد کے سربراہ ذبیح اللہ مجاہد نے دوحہ میں جاری تیسرے اجلاس کی افتتاحی تقریب میں کہا کہ کابل کی شرکت اس بات کا ثبوت ہے کہ ’امارت اسلامیہ‘ مثبت اقدامات کے لیے پرعزم ہے۔

اقوام متحدہ کی زیر قیادت تقریباً دو درجن ممالک پر مشتمل دو روزہ کانفرنس اتوار کو قطر میں شروع ہوئی۔

’دوحہ پراسس‘ کے دوسرے اجلاس میں طالبان نے شرکت سے انکار کیا تھا جس کے بعد ان کی چند شرائط کو ماننے کے بعد ان کا وفد اس اجلاس میں شریک ہوا ہے۔

سیاسی اور امن سازی کے امور کے لیے اقوام متحدہ کی انڈر سیکرٹری جنرل روزمیری ڈی کارلو اس اجلاس کی صدارت کر رہی ہیں۔

اجلاس سے اپنے خطاب میں ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ طالبان حکومت دوحہ کے حالیہ اجلاس کو مالیاتی اور بینکنگ سیکٹر پر عائد یکطرفہ اور عالمی پابندیوں کے حوالے سے تعمیری بات چیت میں شامل ہونے کا ایک اہم موقع سمجھتی ہے۔

ذبیح اللہ مجاہد  نے کہا کہ ’دوحہ کے اس اجلاس میں ہماری شرکت اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے تحفظات کے باوجود امارت اسلامیہ افغانستان میں مثبت اقدامات کے لیے پرعزم ہے۔

’ہم موجودہ دوحہ اجلاس کو بعض عہدیداروں اور ہمارے مالیاتی اور بینکنگ شعبوں پر عائد یکطرفہ اور کثیر جہتی پابندیوں کے ساتھ ساتھ ہماری قومی معیشت کو درپیش وسیع تر چیلنجوں کے حوالے سے تعمیری بات چیت میں شامل ہونے کا ایک اہم موقع سمجھتے ہیں۔‘

ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ سمیت انسانی حقوق کی تنظیموں نے اقوام متحدہ پر تنقید کی ہے کہ انہوں نے افغان خواتین اور لڑکیوں کے خلاف ہونے والے ’جرائم‘ کا جوابدہ ٹھہرانے کی بجائے طالبان کو دوحہ میں مدعو کیا ہے۔
 

انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ فورم ان مسائل کو حل کرنے اور افغان عوام کو یہ یقین دلانے کی طرف ایک مثبت قدم کی نمائندگی کرتا ہے کہ ہماری قوم پر عائد پابندیاں وقت کے ساتھ ختم ہو جائیں گی۔‘

ذبیح اللہ مجاہد نے تسلیم کیا کہ ’بعض ممالک کو طالبان حکومت کے بعض اقدامات پر تحفظات ہوسکتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ریاستوں کے درمیان پالیسی پر اختلافات فطری ہیں اور تجربہ کار سفارت کاروں کا فرض ہے کہ وہ محاذ آرائی کے بجائے بات چیت اور افہام و تفہیم کے راستے تلاش کریں۔‘

وفد کے سربراہ نے مزید کہا کہ موجودہ افغان حکومت نے پوست کی کاشت، اس کی پروسیسنگ اور سمگلنگ پر پابندی عائد کی جس سے پوری دنیا متاثر تھی۔

ان کے بقول: ’یکطرفہ اور کثیرالجہتی پابندیوں اور عالمی دباؤ کے باوجود ہم نے پوست کی کاشت، پروسیسنگ اور سمگلنگ پر پابندی لگائی۔

’پوست کی کاشت، جو افغانستان میں ایک اہم چیلنج کتھا، ہم نے اسے تقریباً صفر کر دیا ہے۔ تاہم اس کے برعکس کچھ ممالک نے ان اقدامات کو تسلیم کرنے اور ان کی پذیرائی کرنے کے بجائے افغان معیشت کو متحرک کرنے کے لیے بینکنگ پابندیوں کو ہٹانے اور قومی مالیاتی ذخائر کو غیر منجمد کرنے کے لیے اپنی عدم تعاون کی پالیسی کو جاری رکھا ہوا ہے۔‘

دنیا کے ممالک کی طرف سے افغانستان کو فراہم کی جانے والی انسانی امداد کے بارے میں بات کرتے ہوئے ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ افغانستان کے اقتصادی مسائل کا حل یکطرفہ اور کثیر الجہتی پابندیوں کو ہٹانا ہے۔

ان کے بقول: ’ہم ان ممالک کی کوششوں کا خیر مقدم کرتے ہیں جو ہمیں انسانی امداد فراہم کرتے ہیں تاہم افغانوں کے اقتصادی مسائل کا بنیادی حل یکطرفہ اور کثیرالجہتی پابندیوں کو ہٹانا، ترقیاتی امداد فراہم کرنا اور افغانستان کی حکومت اور قومی معیشت کو پابندیوں سے آزاد کرنا ہے۔‘

ذبیح اللہ مجاہد نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کا بھی مطالبہ دہرایا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا: ’علاقائی ممالک کے ساتھ تعلقات اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ امارت اسلامیہ ان ممالک سے (سفارتی) تعلقات قائم کرنے اور انہیں برقرار رکھنے کا عزم اور صلاحیت رکھتی ہے۔

’دیگر اقوام بالخصوص مغربی ممالک افغان حکومت کے ساتھ تعلقات کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کر سکتے ہیں۔ علاقائی ممالک کی طرح وہ مثبت طور پر حقیقی اور عملی اقدامات کر سکتے ہیں۔‘

افغان وفد کے سربراہ نے مزید کہا کہ کابل کو امید ہے کہ مغربی ممالک موجودہ افغان حکومت کے ساتھ باہمی دوطرفہ مفادات کو ترجیح دیں گے۔

ان کے بقول: ’جس طرح علاقائی ممالک نے ایک ذمہ دار نظام کے طور پر افغانستان کی موجودہ حکومت کے ساتھ مثبت بات چیت کی ہے، ہمیں امید ہے کہ مغربی ممالک بھی اسی طرح باہمی دو طرفہ مفادات کو ترجیح دیں گے۔‘

ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ دوحہ اجلاس کو نتیجہ خیز اور بامقصد بنانے کے لیے ہمیں مختلف مقاصد پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔

ان کے بقول: ’سب سے پہلے، تمام پابندیوں اور رکاؤٹوں کا خاتمہ کیا جائے اور سابقہ ​​قراردادوں کو منسوخ کرنا اہم ہے جنہوں نے افغانستان کے نجی شعبے کے لیے مشکلات پیدا کی ہیں۔ اس کے علاؤہ افغانستان بنک کے تمام غیر ملکی مالیاتی ذخائر کو غیر منجمد کیا جائے جو کہ افغان عوام کی ملکیت ہیں۔‘

افغان وفد کے سربراہ نے اس بات پر زور دیا کہ ان مالیاتی ذخائر کے منجمد ہونے سے کمرشل بینکوں کی ملکی اور بین الاقوامی صارفین کی کرنسی کی ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت کو شدید نقصان پہنچا ہے جس کے نتیجے میں صارفین کو اکثر اپنے تجارتی کاموں کو جاری رکھنے کے لیے غیر قانونی طریقوں کا سہارا لینے پر مجبور کیا جاتا ہے۔‘

ذبیح اللہ مجاہد نے غزہ میں سنگین انسانی بحران پر بات کرتے ہوئے فلسطینیوں کی حمایت کا اعائدہ کیا۔

ان کے بقول: ’گذشتہ سال اکتوبر سے غزہ میں جاری نسل کشی تاریخ کی ایسی پہلی نسل کشی بن گئی ہے جسے براہ راست نشر کیا گیا ہے۔

’اس سانحے نے ان ممالک اور تنظیموں کی ساکھ کو بری طرح مجروح کیا ہے جو انسانی حقوق کے علم بردار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ اس انسانیت سوز مظالم میں براہ راست ملوث بعض ادارے (اور ممالک) انسانی حقوق پر ہمیں لیکچر دینے کی اخلاقی پوزیشن کھو چکے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا