افغانستان پر ایک اور دوحہ اجلاس، کیا مثبت نتائج سامنے آ سکتے ہیں؟

افغان طالبان نے اس سے قبل دو دوحہ اجلاسوں میں شرکت نہیں کی تھی، لیکن کیا اقوام متحدہ کی سربراہی میں منعقدہ اس تیسرے اجلاس میں اس کی شرکت کے کچھ نتائج نکلیں گے؟

افغان طالبان کا اعلیٰ سطحی وفد 12 اکتوبر، 2021 کو دوحہ میں غیر ملکی سفیروں سے ملاقات کرتے ہوئے (اے ایف پی)

اقوام متحدہ کا افغانستان کے حوالے سے خصوصی مندوبین کا ایک اور اجلاس قطر کے شہر دوحہ میں 30 جون سے شروع ہونے والا ہے، جس میں افغان طالبان کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق اجلاس کا مقصد افغانستان کے ساتھ ’مربوط اور منظم طریقے سے بات چیت آگے بڑھانا ہے۔‘

افغان طالبان کی حکومت کہہ چکی ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی میزبانی میں ہونے والے مذاکرات کے تیسرے دور میں شرکت کرے گی۔

طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’امارت اسلامیہ کا وفد دوحہ کانفرنس میں شرکت کرے گا۔ وہ افغانستان کی نمائندگی کرے گا اور افغانستان کا مؤقف بیان کرے گا۔‘

اس سے پہلے ہونے والے دو اجلاسوں میں افغان طالبان نے شرکت نہیں کی تھی اور نہ وہاں پر ان کا کوئی نمائندہ موجود تھا۔ ان اجلاسوں میں شرکت کے لیے انہوں نے چند شرائط رکھی تھیں۔

تازہ اجلاس کے حوالے سے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے سیاسی اور قیام امن کے امور کے نمائندے روزمیری ڈیکارلو نے 18 سے 21 مئی کو افغانستان کا دورہ کیا تھا اور وہاں افغان طالبان کے نمائندوں سے ملاقات کی تھی۔

اس ملاقات کے حوالے سے اقوام متحدہ کے ترجمان نے ایک بریفنگ کے دوران بتایا تھا کہ افغانستان کی نگران حکومت کو دوحہ اجلاس میں شر کت لیے باقاعدہ دعوت دی گئی اور دیگر مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

اقوام متحدہ کا افغانستان کے حوالے سے دوحہ میں اجلاسوں کا سلسلہ گذشتہ سال سے جاری ہے اور یہ اجلاس بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے، جس سے تجزیہ کاروں نے کئی امیدیں وابستہ کی ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو نے اس اجلاس کے حوالے سے مختلف تجزیہ کاروں سے بات کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ اس کے کوئی مثبت نتائج سامنے آ سکتے ہیں یا یہ صرف ایک روایتی اجلاس ہو گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسلام آباد میں مقیم صحافی اور افغان امور کے ماہر طاہر خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ بالکل بھی ایک روایتی اجلاس نہیں بلکہ افغانستان کے حالات کے حوالے سے اہم اجلاس تصور کیا جاتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ جس طرح ماسکو میں اجلاس ہو رہے ہیں تو یہ اسی طرح کا ایک سلسلہ ہے تاکہ افغان طالبان کے ساتھ رابطوں کو قائم رکھا جا سکے اور بات چیت کو آگے بڑھایا جا سکے۔

طاہر خان نے بتایا، ’پہلے اجلاس میں افغان طالبان کو دعوت نہیں ملی تھی لیکن دوسرے اجلاس میں افغان طالبان نے شرکت کو کچھ مطالبات سے مشروط کیا تھا اور وہ مطالبات اقوام متحدہ نے تسلیم نہیں کیے تھے۔‘

طاہر خان کے مطابق تیسرا اجلاس اقوم متحدہ کی سلامتی کونسل کی ایک جائزہ رپورٹ سامنے آنے کے بعد افغان طالبان سے بات آگے بڑھانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔

’یورپی یونین، اقوام متحدہ اور قطر حکومت کی نمائندوں نے افغانستان میں افغان طالبان سے اس سلسلے میں ملاقاتیں کی ہیں تاکہ اجلاس میں شرکت کر کے بات کو آگے بڑھایا جا سکے۔‘

انہوں نے اجلاس سے کچھ نہ کچھ پیش رفت کی امید کی ہے کیونکہ اس بار بھی باقاعدہ افغان طالبان کو مدعو کیا گیا ہے اور یہ چین اور روس کا بھی مطالبہ تھا کہ انہیں اجلاس میں بلایا جائے۔

انہوں نے بتایا کہ افغان طالبان کے ساتھ جو ان کی باتیں ہوئی ہے تو انہیں اجلاس کا جو زبانی ایجنڈہ بتایا گیا ہے اس سے افغان طالبان کو اختلاف نہیں۔

طاہر خان کے مطابق زبانی ایجنڈے میں ایک افغانستان میں منشیات کی روک تھام کے حوالے سے بات کی گئی ہے، جس پر افغان طالبان کو کوئی اعتراض نہیں۔

دوسری اہم بات طاہر خان کے مطابق یہ بتائی گئی ہے کہ اجلاس میں افغانستان کے بینکنگ سیکٹر کو منظم کرنے پر بات ہوگئی اور اس پر بھی افغان طالبان کو کوئی اعتراض نہیں۔

’ماحولیاتی تبدیلی بھی ایجنڈے میں شامل ہوگی اور اس پر بھی افغان طالبان کو اعتراض نہیں، لیکن باقی تفصیلی ایجنڈا ابھی سامنے نہیں آیا۔‘

پچھلے دو اجلاسوں کے بارے میں طاہر خان نے بتایا کہ افغان طالبان کو اختلاف تھا کہ پہلے سے اقوم متحدہ کا نمائندہ کابل میں موجود ہے تو کسی دوسرے نمائندے کی ضرورت نہیں جبکہ طالبان نے بعض ممالک کی شرکت پر بھی اعتراض کیا تھا۔

طاہر خان کے مطابق پہلے اجلاسوں میں افغان طالبان نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل سے الگ ملاقات کا مطالبہ کیا تھا لیکن اس بار چونکہ سیکریٹری جنرل کے نمائندے کی پہلے سے افغان طالبان کے ساتھ ملاقات ہوچکی ہے تو یہ اعتراض اب نہیں رہا۔

’ماضی کے اجلاس میں یہ بتایا گیا تھا کہ مرکزی ملاقات میں افغان طالبان کے نمائندے کو بیٹھنے کی اجازت نہیں ہوگی جس پر افغان طالبان کو اعتراض تھا لیکن اس بار لگ رہا ہے کہ وہ مرکزی میٹنگ کا حصہ ہوں گے۔‘

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں افغانستان کے ساتھ روابط کو مستقل بنیاد پر استوار کرنے کے لیے ایک خصوصی نمائندے کی تعیناتی کی سفارش کی تھی، لیکن طالبان نے یہ کہتے ہوئے اس کی مخالفت کی کہ یہ طریقہ کار جنگ زدہ ممالک کے لیے اختیار کیا جاتا ہے اور ان کے ملک میں اب ایسا کچھ نہیں۔

ان اجلاسوں میں پاکستان کا کیا کردار ہے؟ اس حوالے سے طاہر خان نے بتایا کہ پاکستان اس کا ایک متحرک رکن ہے اور اس مرتبہ بھی اجلاس میں شرکت کرے گا۔

تاہم طاہر خان کے مطابق پاکستان کی حکمت عملی بظاہر ابہام کا شکار ہے کیونکہ پاکستان زیادہ تر امریکہ کے موقف کی حمایت کرتا ہے اور دیگر ممالک جیسے ایران، روس وغیرہ سے بعض چیزوں پر اختلاف کرتا ہے لیکن پھر بھی پاکستان کا کردار اس اجلاس میں ہمیشہ اہم رہا ہے۔

’اختلاف کا مطلب یہ بالکل نہیں کہ ان ممالک (روس چین وغیرہ) سے وہ بالکل الٹی سمت جا رہا ہے، لیکن اختلاف ضرور ہوسکتا ہے اور زیادہ تر امریکہ کی طرف جھکاؤ ہوتا ہے۔‘

پروفیسر محمد عرفان اشرف پشاور یونیورسٹی کے شعبہ صحافت کے پروفیسر اور امریکہ کے ایلینیس یونیورسٹی میں شدت پسندی پر تحقیق کرنے والے محقق ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ دوحہ میں یہ تیسرا دور اس حوالے سے بھی اہم ہے کہ اس پر انسانی حقوق کے تنظیمیں تنقید کر رہی ہیں۔

پروفیسر عرفان اشرف نے بتایا کہ ’اقوام متحدہ کو انسانی حقوق کے تنظیموں نے واضح طور پر بتایا ہے کہ جب تک طالبان لڑکیوں کی تعلیم پر سے پابندی نہیں ہٹاتے اور دیگر حقوق کا احترام نہیں کرتے تو ان سے کسی قسم کی بات کرنا بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہہ دوسری اہم بات کہ اس وقت یوکرین میں جھگڑا جاری ہے اور امریکہ میں جو بائیڈن کو ایک بڑا چیلنج یہ ہے کہ امریکہ کی بڑی جامعات میں اسرائیل کے خلاف مظاہرے بھی شروع ہوئے ہیں۔

’بائیڈن کی کوشش ہے کہ اسرائیل کے خلاف بیانیے پر سے توجہ کو ہٹایا جائے۔‘

’امریکہ نہیں چاہتا کہ افغان طالبان کے چین کے ساتھ بہتر تعلقات ہوں جبکہ ایران اور افغان طالبان کو بھی ایک ساتھ نہیں دیکھنا چاہتے، اور میرا ذاتی خیال ہے کہ امریکہ طالبان کو تسلیم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘’

عرفان اشرف نے بتایا کہ طالبان کی اس اجلاس میں ممکنہ شرکت سے بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ یہ امریکہ کی پالیسی ہے کہ جس سے دشمنی کرتے ہیں تو سوائے ایران کے سب کو اینگیج رکھنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ’امریکہ کبھی بھی افغانستان کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتا کیونکہ افغانستان کے وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ تعلقات ہیں اور امریکہ کے لیے یہ بہت اہم ہے جس کا اثر عرب ممالک پر بھی ہوتا ہے جبکہ وسطی ایشیا کے ممالک میں چین کا عمل دخل بھی بڑھ رہا ہے۔‘

تاہم عرفان اشرف کے مطابق یہ اتنا آسان بھی نہیں کہ امریکہ افغان طالبان کو تسلیم کر لے لیکن وہ انہیں اینگیج ضرور رکھنا چاہتا ہے۔

2017 سے 2019 تک پاکستان میں افغانستان کے نائب سفیر رہنے والے زردشت شمس نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ افغانستان کے حوالے سے پڑوسی ممالک کے اپنے مفادات اور مغربی ممالک کے اپنے ہیں۔

خاص طور پر، زردشت شمس کے مطابق، امریکہ کے اپنے مفادات ہیں جبکہ چین اور روس کے اپنے خدشات ہیں اور اگر افغانستان میں دوبارہ حالات خراب ہوتے ہیں تو اس کا اثر چین اور روس پر ہوسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ تو نکل گیا ہے لیکن پھر بھی اگر افغانستان کے لوگوں کے حالات خراب ہوتے ہیں تو کچھ حد تک خود کو وہ ذمہ دار گردانتے ہیں کیونکہ 25 سال تک انہوں نے لڑائی کی ہے جبکہ وہ یہ بھی یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ افغانستان کی زمین ان کے خلاف استعمال نہ ہو۔‘

زردشت شمس نے بتایا کہ تین سال ہوگئے لیکن افغان طالبان ابھی تک اس میں کامیاب نہ ہوئے کہ کوئی ملک ان کو تسلیم کرے جبکہ افغان عوام کی بھی وہ حمایت حاصل نہیں کر سکے۔

’قبولیت کا یہ کام بہت سستی سے جاری ہے۔ وہ اقوم متحدہ میں اپنا مستقل مندوب بھی تعینات کروانا چاہتے ہیں تو یہ اجلاس اس سلسلے کی بھی ایک کڑی ہے کہ افغان طالبان بات آگے بڑھا سکیں۔’

زردشت نے بتایا کہ افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم اور اظہار رائے پر پابندی ہے تو بین الاقوامی قوتوں کے لیے یہ ایک چیلنج ہے کہ اس صورت میں افغان طالبان کی حکومت کو کیسے تسلیم کریں۔

انہوں نے بتایا کہ ’بین الاقوامی قوتیں اب اسی وجہ سے طالبان کو اینگیج رکھنا چاہتی ہیں کیونکہ طالبان کا موقف ابھی بھی سخت ہے اور وہ کہتے ہیں کہ اگر بین الاقوامی قوتیں تعاون نہیں کرتیں تو وہ بھی نہیں کریں گے۔‘

اس اجلاس کا مقصد یہی ہے کہ طالبان سے بات کیسے آگے بڑھائی جاسکے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا