پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے ایک گنجان آباد جزیرے پر حاملہ خواتین کا ایک گروہ ہیٹ ویو کی شدت میں کراچی سے آنے والی واحد مڈوائف (دائی) کا انتظار کر رہا ہے۔
ہر ہفتے نیہا منکانی کشتی ایمبولینس کے ذریعے بابا جزیرے آتی ہیں، جو مچھلیاں پکڑنے والوں کی ایک پرانی بستی ہے اور مبینہ طور پر دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے جزیروں میں سے ایک ہے، جہاں تقریباً ساڑھے چھ ہزار افراد رہتے ہیں، جو اعشاریہ 15 مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔
موسمیاتی تبدیلی سے گردو نواح کے سمندر کی سطح بلند ہو رہی ہے اور بڑھتا ہوا درجہ حرارت زمین کو اور زیادہ گرم کر رہا ہے۔
گذشتہ سال نیہا منکانی کی ایمبولینس شروع ہونے سے پہلے تک حاملہ خواتین حالات کے رحم و کرم پر تھیں۔
اپنے جزیرے کے کلینک کے دروازے پر انتظار کرنے والی 26 سالہ زینب بی بی، گذشتہ موسم گرما میں حمل ضائع ہونے کے بعد دوبارہ حاملہ ہوئی ہیں۔
انہوں نے یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ’وہ بہت گرم دن تھا، میں اچھا محسوس نہیں کر رہی تھی، کشتی کے مالکان کو کراچی جانے پر رضامند کرنے کے لیے ان کے شوہر کو کئی گھنٹے لگے– لیکن اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’جب میں نے ہسپتال میں اپنی بچی کو جنم دیا، اس وقت تک وہ مر چکی تھی۔‘
پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں شدید موسمی حالات سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے، جہاں ہیٹ ویو زیادہ گرم، طویل اور تواتر کے ساتھ آتی رہتی ہیں۔
رواں سال مئی اور جون میں ہیٹ ویو کا ایک سلسلہ دیکھا گیا، جس کے باعث کئی دنوں تک درجہ حرارت 52 ڈگری سیلسیس (126 ڈگری فارن ہائیٹ) سے اوپر رہا۔
کشتی کے 20 منٹ کے سفر کے دوران 38 سالہ نیہا منکانی نے بتایا کہ ’آب و ہوا کی تبدیلی سب کو یکساں طور پر متاثر نہیں کرتی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’حاملہ خواتین اور نوزائیدہ بچے، نفاس والی خواتین یقینی طور پر زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ موسم گرما کے مہینوں میں ہم پیدائش کے وقت کم وزن، قبل از وقت پیدائش اور حمل ضائع ہونے کے واقعات میں اضافہ دیکھتے ہیں۔‘
برٹش جرنل آف اوبسٹیٹریکس اینڈ گائناکولوجی میں گذشتہ سال کی اشاعت کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ خواتین میں مردہ بچوں کی پیدائش کا خطرہ اس وقت زیادہ ہوتا ہے جب وہ اپنے علاقے کے درجہ حرارت میں معمول کے مقابلے میں 90 فیصد سے زیادہ اضافے کا سامنا کرتی ہیں۔
منکانی نے کہا کہ ’ہمارے پاس ثبوت نہ ہونے سے پہلے، بہت کچھ غیر مصدقہ باتوں پر مبنی تھا، لیکن ہم کچھ عرصے سے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات دیکھ رہے ہیں۔‘
اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان میں بچے پیدا کرنے والی ہر ایک لاکھ خواتین میں سے 154 خواتین موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں جو کہ دوران زچگی بلند شرح اموات ہے، جس کی وجہ اور بالخصوص نوجوان خواتین کی سماجی و اقتصادی حیثیت، صحت کی سہولیات کے حصول کی راہ میں حائل رکاوٹیں اور فیصلہ سازی کے محدود اختیارات ہیں۔
منکانی نے اپنے 16 سالہ کیریئر کا آغاز کراچی کے ایک ہسپتال میں مڈوائف کے طور پر کیا، جہاں وہ ایک ہائی رسک وارڈ میں کام کرتی تھیں اور اکثر ایسی خواتین کا علاج کرتی تھیں جن کا تعلق سمندر کے کنارے پھیلے پانچ جزیروں سے ہو تا تھا۔
انہوں نے 2015 میں ’ماما بے بی فنڈ‘ کی بنیاد رکھی اور حاملہ اور نئی ماؤں کے لیے جزیروں پر پہلا کلینک بنایا۔ انہوں نے کہا کہ ’ہر کسی نے ہمارے لیے اپنے گھر کھول دیے۔‘
گذشتہ سال 24 گھنٹے اور ہفتے کے ساتوں دن مفت کشتی ایمبولینس سروس شروع کی گئی، جو طوفانی سمندر میں چلائے جانے کے لیے ضروری سامان سے لیس ہے۔ یہ کام ایک ایسے خطے میں ہوا جہاں سیلاب کا امکان بڑھ رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
26 سالہ صابرہ راشد نے دو ماہ قبل ایشا نامی بچی کو جنم دیا تھا۔ اس سے قبل دوران زچگی ساتویں ماہ کے دوران ان کا حمل ضائع ہو گیا تھا۔ اس تکلیف دہ نقصان کا ذمہ دار وہ بروقت ہسپتال نہ پہنچنے کو ٹھہراتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ گھاٹ پر، انہوں نے ہمیں انتظار کرنے پر مجبور کیا، کیوں کہ وہ صرف دو یا تین لوگوں کی خاطر کشتی لے جانا نہیں چاہتے تھے۔ انہوں نے ہمیں مزید مسافروں کا انتظار کرنے کے لیے کہا، چاہے کوئی بھی ایمرجنسی ہو۔‘
غریب جزیروں پر لڑکیوں کی شادی اکثر 16 سال کی عمر میں کر دی جاتی ہے اور شادی کو ایک ایسے علاقے میں خواتین کے لیے تحفظ کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے جہاں آلودہ پانی ماہی گیری کے کاروبار کو ختم کر رہا ہے۔
کلینک کی ایک اسسٹنٹ شاہدہ ثمر نے اپنے چہرے سے پسینہ پونچھتے ہوئے کہا کہ ’ان میں سے زیادہ تر لڑکیوں کو اپنا خیال رکھنا نہیں آتا، وہ گندے پانی سے شدید انفیکشن کا شکار ہو جاتی ہیں۔‘
45 سالہ شاہدہ نے کہا کہ ہیٹ ویو کے دوران نوجوان ماؤں کو بنیادی مشورے دیے جاتے ہیں، جیسا کہ اپنے نوزائیدہ بچوں کو لپیٹنے کے لیے خشک اور صاف تولیے کا استعمال کرنا، دودھ پلانے سے پہلے اپنی چھاتی کو دھونا اور پانی کی کمی سے بچنا۔
لیکن پینے کے پانی تک رسائی نہ ہونے اور بجلی کی کمی کی وجہ سے، گرمی سے پیدا ہونے والے مسائل کا سامنا کرنا تمام جزیروں کے باشندوں کے لیے ایک مسئلہ ہے۔
خواتین کو خاص طور پر خطرہ ہوتا ہے، جو عام طور پر چھوٹے کمروں میں لکڑی جلا کر کھانا پکاتی ہیں جہاں پنکھے یا ہوا گزرنے کا مناسب انتظام نہیں ہوتا۔
30 سالہ عائشہ منصور کے چار بچے ہیں اور وہ بابا جزیرے کے کنارے رہتی ہیں، جہاں دن میں صرف چار سے پانچ گھنٹے بجلی آتی ہے۔
ان کے گھر جانے کا راستہ پلاسٹک کے پھینکے ہوئے شاپروں کے قالین سے ڈھکا ہوا ہے، جو لہریں بلند ہونے پر پانی میں چلے جاتے ہیں۔
انہوں نے اپنے بچے پر بیٹھی مکھیاں اڑاتے ہوئے کہا کہ ’صرف وہ لوگ جن کے پاس شمسی توانائی ہے، گرمی سے بہتر طور پر نمٹ سکتے ہیں۔ ہم اسے برداشت نہیں کر سکتے۔‘
اس کلینک کی ایک 18 سالہ اسسٹنٹ مریم ابوبکر، جو جزیرے پر پلی بڑھی ہیں، کو امید ہے کہ وہ اس کلینک کی پہلی کل وقتی مڈوائف بن جائیں گی۔
انہوں نے بتایا: ’میں حیران ہوتی تھی کہ ہم خواتین کے پاس یہاں کوئی سہولت کیوں نہیں ہے، ایک ایسا کلینک جو صرف ہماری دیکھ بھال کر سکے۔ جب نیہا نے اپنا کلینک کھولا، تو مجھے ایک راستہ نظر آیا جس سے میں اپنی برادری کی عورتوں کی مدد کر سکتی تھی۔‘