پنجاب بلدیاتی ایکٹ 2024 تیار لیکن صوبائی حکومتیں گریزاں کیوں؟

ان دنوں الیکشن کمیشن کے حکم پر پنجاب حکومت نے بلدیاتی انتخابات کی تیاری شروع کر دی ہے۔ جس کے لیے نیا بلدیاتی ترامیمی ایکٹ 2024 تیار کر لیا گیا اور وزیر اعلی پنجاب کو اس بارے میں بریفنگ بھی دے دی گئی ہے۔

19 دسمبر 2020 کو پشاور میں بلدیاتی انتخابات کے دوران خواتین ووٹ ڈالتے ہوئے (اے ایف پی/ عبدالمجید)

آئین پاکستان کے آرٹیکل 140 اے کے مطابق ملک کی ہر صوبائی حکومت کو مقامی حکومتوں کا قیام عمل میں لانے کا پابند کیا گیا ہے، جنہیں سیاسی، انتظامی اور مالیاتی خود مختاری حاصل ہوگی۔

اس حوالے سے سیاسی حکومتوں بالخصوص پنجاب اور سندھ کی ماضی کی حکومتوں کی کارکردگی زیادہ حوصلہ افزا نہیں دکھائی دیتی۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ماضی میں بلدیاتی ادارے صرف غیر جمہوری حکومتوں کے دوران تشکیل پائے اور مستحکم ہوئے۔

اس کی وجہ غیر جمہوری حکومتوں کی اپنی ضرورت تھی کہ ان کی اپنی کوئی سیاسی جماعت نہ تھی۔

اب بھی صرف پنجاب اور اسلام آباد میں ہی بلدیاتی انتخابات نہیں ہوئے اور یہاں بلدیاتی اداروں کا فی الحال وجود نہیں ہے۔

ان دنوں الیکشن کمیشن کے حکم پر پنجاب حکومت نے بلدیاتی انتخابات کی تیاری شروع کر دی ہے۔ جس کے لیے نیا بلدیاتی ترامیمی ایکٹ 2024 تیار کر لیا گیا اور وزیر اعلی پنجاب کو اس بارے میں بریفنگ بھی دے دی گئی ہے۔

یہ ایکٹ رواں ماہ لاگو کرنے اور بلدیاتی الیکشن دسمبر میں کرانے کا عندیہ دیا گیا ہے۔

اس حوالے سے وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی برائے محکمہ بلدیات ذیشان ملک نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جتنا چھوٹا لوکل حکومت کا حجم ہوگا اتنے زیادہ اختیارات نچلی سطح تک منتقل ہو سکیں گے۔ ہم نے نیا ایکٹ تیار کر لیا ہے جو ہر لحاظ سے جامع اور سابق ایکٹ سے مختلف ہوگا، کمیٹی ممبران کی بلدیاتی اداروں کی مدت چار سال مقرر کرنے کی تجویز ہے۔‘

یہ ایکٹ اسمبلی سے پاس ہونے کے بعد صوبے بھر میں لاگو کر دیا جائے گا۔

انتخابات سے متعلق کام کرنے والی تنظیم پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کے بقول، ’صوبائی حکومتوں کو الیکشن کمیشن اور عدالتوں کے حکم پر عمل تو کرنا ہوتا ہے مگر کوئی صوبائی حکومت بلدیاتی انتخابات کرانے میں سنجیدہ دکھائی نہیں دیتی کیونکہ اختیارات کی ہوس کے باعث وہ مقامی نمائندوں کو بااختیار کرنے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔‘

تجزیہ کار سلمان غنی کے بقول، ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں ہی چاروں صوبوں میں برسر اقتدار ہیں۔

’وہ بلدیاتی انتخابات کے ذریعے اختیارات بانٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ سندھ میں بھی بلدیاتی الیکشن سپریم کورٹ کے حکم پر کرانا پڑا اور اب پنجاب میں بھی الیکشن کمیشن کے حکم پر کرانے کی تیاری ہو رہی ہے۔ مگر مجھے نہیں لگتا اس سال بلدیاتی الیکشن پنجاب میں ہوسکے گا۔‘

موجودہ بلدیاتی ترامیمی ایکٹ میں نیا کیا ہے؟

پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے لیے تحریک انصاف کی حکومت نے 2022 میں ایکٹ بنایا تھا لیکن چار سالہ دور حکومت میں بلدیاتی انتخاب نہ ہوسکا۔

اسلام آباد میں بھی عدالتی احکامات کے باوجود کئی سالوں سے بلدیاتی انتخابات نہیں ہوئے۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے موجودہ حکومت کو بلدیاتی ایکٹ رواں سال جولائی میں لاگو کرنے کی ہدایت کی تھی۔ لہذا پنجاب حکومت نے نیا بلدیاتی ترامیمی ایکٹ 2024 تیار کیا ہے۔

وزیر اعلی پنجاب مریم نواز کو محکمہ بلدیات اور قانون کی جانب سے تیاری کے بعد پیش کردہ بلدیاتی ایکٹ 2024 کے مطابق میئر کا انتخاب جماعت کی بنیادوں پر کرنے کی تجویز دے دی گئی۔

مسودہ ایکٹ 2024 میں بتایا گیا ہے کہ شہری اور دیہی علاقوں کو مکمل تقسیم کرنے کی حد بندی کی جائے گی۔

ڈویژنل ہیڈکوارٹرز میں میٹرو پولیٹن کارپوریشن بنائی جائیں گی۔ نئی مردم شماری کے مطابق بلدیاتی حلقہ بندی ہو گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کے تحت 20 ہزار سے کم آبادی میں ایک یونین کونسل قائم کی جائے گی۔ آبادی کی بنیاد پرلاہور میں یونین کونسلز کی تعداد پانچ سو سے زائد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

سات لاکھ سے زائد آبادی پر مشتمل شہر کے لیے میٹروپولیٹن کارپوریشنز بنائی جائیں گی۔ 15 ہزار سے 50 ہزار آبادی تک ٹاؤن کمیٹی بنائی جائے گی۔ 50 ہزارسے دولاکھ آبادی میں میونسپل کمیٹی بنائی جائے گی جبکہ دو لاکھ سے پانچ لاکھ تک آبادی کے لیے میونسپل کارپوریشنز بنائی جائیں گی۔

دوسری جانب الیکشن کمیشن نے بھی پنجاب میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کرانے کے لیے انتظامات شروع کر دیے ہیں۔

الیکشن کمیشن نے یکم جولائی سے پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے لیے نئی حلقہ بندیوں کی تشکیل کے احکامات جاری کر رکھے ہیں۔ صوبے بھر میں یونین کونسل، میٹرو پولیٹن کارپوریشنز، ضلع کونسل سمیت تمام سابق بلدیاتی حلقہ بندیوں کی حدود کو منجمد کردیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے حلقہ بندیوں کے لیے 30 جون تک تمام اقدامات کی ہدایت کی گئی تھی۔

یکم جولائی سے 22 جولائی تک حلقہ بندیوں کی تشکیل کے لیے کمیٹیاں بنانے اور ابتدائی حلقہ بندیوں کی تشکیل اور 23جولائی کو ابتدائی فہرست کی اشاعت اور اعتراضات جمع کرانے کی ہدایت کی گئی ہے۔

 22 اگست تک حلقہ بندیوں پر اعتراضات نمٹانے جبکہ 29 اگست تک حلقہ بندیوں کا حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔

یکم ستمبر 2024 تک پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے لیے حلقہ بندیوں کی حتمی فہرست جاری کرنے کا کہا گیا ہے جبکہ رواں سال دسمبر میں  بلدیاتی انتخابات کرانے کی ہدایت کی گئی ہے۔

صوبائی حکومتیں مقامی نمائندوں کو اختیار دینے میں کتنی سنجیدہ؟

احمد بلال محبوب کے بقول، ’پاکستان میں پہلے تو وفاقی حکومت کے صوبوں کو اختیارات منتقل کرنے کا مسئلہ چلتا رہا۔ یہی وجہ تھی کہ مشرقی پاکستان اسی طرح کی ناانصافیوں کے باعث الگ ہوگیا۔ پھر اٹھارھویں ترمیم کے بعد جب صوبوں کو اختیارات ملے تو انہوں نے مقامی سطح پر اختیارات کو منتقل کرنے سے گریز کیا جو آج بھی جاری ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ اختیارات کی ہوس ہے۔ کوئی وزیر اعلی نہیں چاہتا کہ اختیارات مقامی نمائندوں کو اضلاع یا یونین کونسل کی سطح تک دینے پڑیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ماضی کو دیکھا جائے تو سیاسی حکومتوں نے بلدیادتی ادارے مضبوط نہیں کیے۔ کیونکہ ایسا کرنے سے ان کی صوبائی یا وفاقی سیاست کو خطرے کا گمان ہونے لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی نے کبھی نہیں چاہا کہ بلدیاتی الیکشن جماعتی بنیادوں پر ہوں۔ کیونکہ ایسا کرنے سے مقامی سطح پر ٹکٹوں کی تقسیم سے جماعتوں میں اختلافات پیدا ہوتے ہیں۔ جماعتی بنیادوں پر بلدیاتی انتخابات بھی سپریم کورٹ کے حکم پر مجبوری میں کرانا شروع ہوئے۔‘

احمد بلال کے مطابق، ’جب تک سیاسی قیادت نچلی سطح تک ترقی یافتہ ممالک کی طرح ادارے مضبوط کر کے بااختیار نہیں کرے گی مسائل حل نہیں ہوں گے۔‘

تجزیہ کار سلمان غنی کے بقول، ’سیاسی جماعتوں کا بلدیاتی انتخابات کرانے سے متعلق کردار ہمیشہ مایوس کن رہا ہے۔ غیر جمہوری ادوار میں مقامی حکومتیں بنیں اور بااختیار ہوئیں اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے پاس سیاسی جماعتیں نہیں تھیں۔ اس کے بعد سیاسی حکومتوں نے صرف وفاق اور صوبائی سطح تک ہی اختیارات کو محدود رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتیں پوری طرح مضبوط نہیں ہو پائیں۔‘

سلمان غنی نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن یا عدالتوں کے حکم پر مجبوری میں اگر سیاسی جماعتیں بلدیاتی الیکشن کراتی بھی ہیں تو کنٹرولڈ قیادت کو آگے لاکر اختیارات صوبائی سطح پر ہی رکھے جاتے ہیں۔ رکن قومی و صوبائی اسمبلی کے ذریعے ہی نچلی سطح پر کام کرانے کو ترجیح دی جاتی ہے تاکہ سیاسی فائدہ ہوتا رہے۔ اس کے برعکس اگر مقامی سطح پر ادارے مستحکم کیے جائیں اور لوگوں کے مسائل ان کی دہلیز پر حل ہوں تو سیاسی حکومتیں وفاق اور صوبوں میں زیادہ بہتر اور بڑے کام کر سکتی ہیں۔‘  

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست