ڈرامے سے متاثر ہوکر یتیم بچوں کی کفالت کا بیڑہ اٹھانے والی خضدار کی خاتون

بلوچستان کے ضلع خضدار سے تعلق رکھنے والی آمنہ شفیع نے ایک ڈرامے سے متاثر ہو کر 2012 میں دو یتیم بچوں کی تعلیم میں مدد فراہم کی، جس کے بعد یہ سلسلہ چل نکلا اور اب ان کے دو یتیم خانوں میں 60 سے زائد بچے زندگی گزار رہے ہیں۔

بلوچستان کے ضلع خضدار سے تعلق رکھنے والی آمنہ شفیع گذشتہ 12 سال سے اپنی مدد آپ کے تحت کوئٹہ اور خضدار میں سینکڑوں یتیم بچوں کی کفالت کے ساتھ ساتھ انہیں دینی و دنیاوی تعلیم بھی فراہم کر رہی ہیں۔

’شفیع آرفنیج ہوم اینڈ ویلفیئر سوسائٹی‘ کی چیئرپرسن آمنہ شفیع کے مطابق کوئٹہ اور خضدار میں ان کے یتیم خانے کی دو برانچیں ہیں، جہاں 60 کے قریب بچے زندگی گزار رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ 120 بچوں کے تعلیمی اخراجات کی ادائیگی میں بھی ان کی مدد کر رہی ہیں۔

آمنہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے یہ کام 2012 سے شروع کیا تھا۔ ’میں بچپن میں ایک ڈرامے سے متاثر ہوئی تھی، جس میں دو کردار ایک یتیم بچے کو سہارا دیتے ہیں۔ بعدازاں میں نے 2012 میں دو بچوں کو تعلیم میں مدد فراہم کی اور آج وہ دونوں بچے یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں۔ جب میں ان سے ملاقات کرتی ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ میرے تمام خواب پورے ہوگئے ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں: ’اس وقت میں نے دو بے سہارا یتیم بچوں کو تعلیم میں مدد فراہم کی تھی اور آج دو یتیم خانوں میں میرے پاس 60 کے قریب بچے زیر کفالت ہیں، جن کی عمریں 3 سے 15 سال کے درمیان ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بچوں کی روزمرہ کی مصروفیات کے حوالے سے آمنہ نے بتایا کہ ان بچوں کا معمول بہت مصروف ہوتا ہے۔ صبح سویرے اٹھ کر عبادت کے بعد ناشتہ کرکے وہ سکول روانہ ہوتے ہیں، جہاں سے واپسی پر کھانے سے فارغ ہو کر قاری صاحب کی نگرانی میں دینی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ پھر چائے بریک کے بعد تمام بچے اِن ڈور اور آؤٹ ڈور گیم کھیلتے ہیں۔ پھر وہ انہیں ٹیوشن پڑھاتی ہیں اور رات کے کھانے کے بعد وہ کچھ دیر ٹی وی دیکھ کر پھر آرام کرتے ہیں۔ اس دوران تمام بچے سختی سے عبادات کا اہتمام کرتے ہیں۔

انہوں نے بتایا: ’چھٹی کے دن ہم انہیں تفریحی مقامات پر لے جاتے ہیں تاکہ وہ لطف اندوز ہونے کے ساتھ ذہنی طور پر تندرست ہوں۔ ان بچوں کی تعلیم کے علاوہ کمپیوٹر سمیت دیگر مختلف ہنر کے ذریعے ذہن سازی کی جاتی ہے تاکہ مستقبل میں وہ کارآمد شہری بن سکیں۔‘

ایک بچے نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’میں جب اپنے رشتہ داروں کے گھر جاتا ہوں تو مجھے میرا یہ گھر کافی یاد آتا ہے۔ اب میری خوشی اسی گھر سے جڑی ہے اور ہمارا سب کچھ ہماری ماں آمنہ شفیع ہیں۔ گھر سے زیادہ سہولیات یہاں دستیاب ہیں۔

چار سالہ ثنا بھی اس یتیم خانے کی رہائشی ہیں اور وہ یہاں رہ کر اپنی مادری زبان کے علاوہ دو اور زبانیں بھی سیکھ چکی ہے۔

آمنہ نے بتایا: ’میں جب ان بچوں کے ساتھ ہوتی ہوں تو پرسکون سا محسوس کرتی ہوں۔ ان تمام بچوں کو میں اپنی اولاد سمجھتی ہوں اور یہ سب میرے لاڈلے ہیں۔ یہ بچے بھی مجھ سے ماں کی طرح پیار کرتے ہیں۔‘

ایک سوال کے جواب میں آمنہ نے بتایا کہ ’بلوچستان بھر سے پشتون، بلوچ، سندھی اور دیگر رنگ و نسل، قوم اور مذہب کے بچے میرے پاس آتے ہیں۔ کچھ ایسے بچے بھی آتے ہیں جو جسمانی اور ذہنی طور پر بہت بیمار ہوتے ہیں، انہیں مختلف محرومیوں کا سامنا رہا ہوتا ہے۔ ہراسانی کے شکار، پولیس سٹیشن، حتیٰ کہ بکریوں کے ریوڑ سے بھی بچے لائے گئے ہیں۔ اب ان بچوں کا عام بچوں سے اگر آپ مقابلہ کروائیں تو آپ کو نہیں لگے گا کہ یہ کسی محرومی کا شکار یا یتیم بچے رہے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا: ’یہاں میں خود اپنی مدد آپ کے تحت ان بچوں کو سنبھالتی ہوں۔ کھانے پینے، رہائش، جوتے، کپڑے، کھیل، تعلیم و دیگر ضروریات میں خود پوری کرتی ہوں اور اس کارِ خیر میں مخیر حضرات میری مدد کرتے ہیں۔‘

آمنہ کا ادارہ صوبائی سطح پر رجسٹرڈ ہے اور اب وہ اسے ملکی سطح پر رجسٹر کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا: ’میرے والد نے خضدار میں پانچ ایکڑ زمین ان بچوں کے نام پر وقف کی ہے، جہاں مستقبل میں، میں ان بچوں کے لیے ایک کمپلیکس بنانا چاہتی ہوں جس میں کھیل، تعلیم، رہائش سمیت تمام ضروریات پوری ہوں۔‘

بقول آمنہ: ’میری خواہش ہے کہ میرے بچے انجینیئر، ڈاکٹر، سائنس دان، ٹیچر اور سی ایس ایس آفیسر بنیں اور بہتر مستقبل گزار کر اپنے ملک اور قوم کی خدمت کریں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین