پاکستانی سپرنٹر فائقہ ریاض پیرس اولمپکس 2024 میں ملک کی نمائندگی کرتے ہوئے 100 میٹر دوڑ میں کارکردگی بڑھانے کے لیے پرعزم ہیں۔
پیرس اولمپکس کا انعقاد رواں برس 26 جولائی سے 11 اگست تک کیا جا رہا ہے، جس میں 32 کھیلوں کے 329 مقابلوں میں مختلف ممالک سے 10 ہزار پانچ سو ایتھلیٹ حصہ لے رہے ہیں۔
پاکستان سے اب تک سات کھلاڑیوں کو حصہ لینے کا اہل قرار دیا گیا ہے، جن میں دو ایتھلیٹ، دو تیراک اور تین شوٹر شامل ہیں۔
ان میں سے ایک پہلی بار اولمپکس کے لیے وائلڈ کارڈ (کوٹے) پر حصہ لینے والی سپرنٹر فائقہ ریاض بھی ہیں، جو پنجاب سٹیڈیم میں پہلے اکیلے ٹریننگ کیا کرتی تھیں لیکن اب انہیں کوچ اور کیمپ کی سہولت فراہم کر دی گئی ہے۔
فائقہ ریاض ان دنوں پنجاب سٹیڈیم میں شام کے سیشن میں دو گھنٹے اکیلے ہی ٹریننگ کرتی رہیں اور 24 جولائی کو پیرس کے لیے روانہ ہوں گی۔
پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے مطابق واپڈا ڈپارٹمنٹ کو کوچ مہیا کرنے کا کہا گیا، جس کے بعد سیمی رضوی کو فائقہ کے لیے کوچ مقرر کیا گیا جبکہ فزیکل فٹنس کے لیے ڈاکٹر میثاق رضوی کو ذمہ داری دی گئی ہے۔
تاخیر سے ہی سہی لیکن کوچ اور کیمپ کی سہولت ملنے پر پاکستانی سپرنٹر خوش ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’اگر مجھے کوچ اور کیمپ کی سہولت پہلے مل جاتی تو کارکردگی میں مزید بہتری ہو سکتی تھی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فائقہ نے بتایا: ’میں نے اٹک نیشنل گیمز میں پہلی پوزیشن حاصل کی تھی لہذا مجھے پیرس اولمپکس میں وائلڈ کارڈ یعنی کوٹے کے تحت شرکت کا موقع ملا ہے۔ میں 100 میٹر ریس صرف 11.70سیکنڈ میں دوڑنے کا ریکارڈ رکھتی ہوں۔ اب ٹریننگ کے دوران اس میں مزید بہتری کی کوشش کر رہی ہوں۔‘
فائقہ نے کامرس میں ایم ایس سی کر رکھا ہے اور اولمپکس کے بعد ان کا ایم فل میں داخلہ لینے کا ارادہ ہے۔
انہوں نے بتایا: ’پاکستان میں بیشتر لڑکیوں کو گھر والوں کی سپورٹ نہیں ملتی، جس سے ان کا ٹیلنٹ متاثر ہوتا ہے، لیکن مجھے گھر والوں کی مکمل حمایت حاصل ہے، جس سے میرا حوصلہ مزید بڑھا ہے۔ میرے والد کی خواہش ہے کہ میں اولمپکس میں گولڈ میڈل جیت کر ملک کا نام روشن کروں۔‘
فائقہ کے علاوہ ایتھلیٹ ارشد ندیم بھی پیرس اولپمکس کے لیے کوالیفائی کر چکے ہیں اور جیولین تھرو مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کریں گے۔
وزیراعظم شہباز شریف کے مشیر رانا ثنا اللہ کہہ چکے ہیں کہ ’پاکستان کی 24کروڑ آبادی میں سے تین یا چار ایتھلیٹ ہی اولمپکس کے لیے کوالیفائی کرتے ہیں، جو کہ افسوس ناک ہے۔ ہمیں کھیلوں کو مزید فروغ دینے کی ضرورت ہے۔‘