لیبر پارٹی نہیں جیتی، کنزرویٹو ہاری ہے

جہاں لیبر پارٹی تاریخی فتح کا جشن منا رہی ہے لیکن اس کے ووٹوں کے تناسب میں کچھ زیادہ اضافہ نہیں ہوا، جب کہ کنزروٹیو پارٹی کا ووٹ 21 فیصد گرا ہے۔

کنزرویٹو پارٹی کے رہنما رشی سونک پانچ جولائی 2024 کی صبح اپنی پارٹی کی شکست کے بعد تقریر کر رہے ہیں (اے ایف پی)

برطانیہ میں  گذشتہ روز ہونے والے جنرل الیکشن کے نتائج آنے کا سلسلہ جاری ہے۔ توقع کے مطابق برطانوی لیبر پارٹی 410 نشستوں پر کامیابی حاصل کر چکی ہے، اور یوں اس نے پچھلے جنرل الیکشن کے مقابلے میں 210 نشستیں زیادہ حاصل کی ہیں اور برطانوی پارلیمان میں اکیلے حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ گئی ہے۔

اس کے مقابلے میں برسرے اقتدار جماعت کنزروٹیو پارٹی کو تاریخی شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے جو صرف 119 نشستیں ہی حاصل کر سکی ہے۔ 1997 میں ٹونی بلیئر کی تاریخی کامیابی کے بعد برطانوی سیاسی تاریخ میں یہ لیبر پارٹی کی اب تک کی سب سے بڑی فتح ہے۔

کنزروٹیو پارٹی کی اس تاریخی شکشت میں کے عوامل نے کردار ادا کیا ہے۔ ایک طرف تو بتدریج بڑھتی مہنگائی اور معاشی کساد بازاری نے برطانوی عوام کو کنزروٹیو پارٹی سے متنفر کیا تو دوسری طرف پارٹی کے 14 سالہ اقتدار کی وجہ سے لوگ اب تبدیلی کے خواہش مند تھے۔

ان تمام عوامل کی وجہ سے لیبر پارٹی نہ صرف شمالی انگلینڈ میں 2019 کے جنرل الیکشن میں اپنی کھوئی ہوئی نشستیں دوبارہ جیتنے میں کامیاب ہوئی بلکہ وہ جنوبی اور مشرقی انگلینڈ کے ان علاقوں میں بھی کامیاب رہی جو کنزروٹیو پارٹی کا روایتی گڑھ رہے ہیں۔

لیبر پارٹی کے اس انتخابی سیلاب کے سامنے کنزروٹیو پارٹی کے بڑے بڑے نام بھی ٹک نہیں پائے اور اب تک نو وزرا اپنی نشستوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔

ہارنے والوں میں سبق برطانوی وزیر اعظم لز ٹرس بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ کنزروٹیو پارٹی کے جیتنے والے امیدواروں کے ووٹوں میں بھی خاصی کمی آئی ہے۔ ان نتائج کے بعد یہ سمجھا جا رہا ہے کہ آنے والے دس سال اب برطانیہ میں لیبر پارٹی کا اقتدار چلے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جہاں لیبر پارٹی ایک تاریخی فتح کا جشن منا رہی ہے تو وہاں یہ بھی واضح رہے کہ اس کے ووٹوں کے تناسب میں کچھ زیادہ اضافہ نہیں ہوا۔

صرف سکاٹ لینڈ میں لیبر ووٹ میں 19 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا ہے جبکہ انگلینڈ میں لیبر پارٹی کے ووٹوں کا تناسب جمود کا شکار رہا۔ اس کے مقابلے میں کنزروٹیو پارٹی کا ووٹ 21 فیصد گرا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ روایتی کنزروٹیو ووٹر اپنی پارٹی کی کارکردگی سے اس قدر مایوس ہو چکا تھا کہ یا تو اس نے ووٹ ڈالنے کی بجائے گھر بیٹھنے کو ترجیح دی یا اگر ووٹ دیا تو اس کا حقدار حزب اختلاف کے امیدوار کے امیدوار رہے۔

برطانیہ کے دفاع دفاع گرانٹ شیپس نے بھی اسی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا، ’آج رات میرے لیے یہ بات بالکل واضح ہے کہ یہ لیبر کی جیت نہیں بلکہ کنزرویٹوز کی ہار ہے۔‘

یہاں نئی بننے والی دائیں بازو کی انتہا پسند جماعت ریفارم پارٹی کا ذکر بھی ضروری ہے جس نے بہت سے کنزروٹیو ووٹروں کو اپنی جانب راغب کیا اور چار نشستوں پر کامیابی بھی حاصل کی۔ اس الیکشن میں ووٹر ٹرن آوٹ 60 فیصد رہا جو کہ برطانوی تاریخ میں دوسرا سب سے کم ٹرن آوٹ ہے۔

لیبر پارٹی کی جانب سے اسرائیل نواز بیانات اور پالیسی اپنانے کی وجہ سے پاکستانی برٹش کمیونٹی کا ایک بڑا طبقہ اس سے متنفر پایا گیا اور اس کا اظہار اس ووٹر نے لیبر پارٹی کے خلاف غزہ جنگ روکنے کے حامی امیدواروں کو ووٹ ڈال کر کیا۔

اس الیکشن میں مختلف جماعتوں کی طرف سے اور آزاد حیثیت میں دو درجن سے زائد پاکستانی نژاد امیدواروں نے حصہ لیا۔ اس الیکشن میں غزہ میں جاری جنگ برطانوی مسلمانوں اور پاکستانی کمیونٹی کے لیے ایک اہم موضوع رہی۔

خاص طور سے لیبر پارٹی کی جانب سے اسرائیل نواز بیانات اور پالیسی اپنانے کی وجہ سے پاکستانی برٹش کمیونٹی کا ایک بڑا طبقہ اس سے متنفر پایا گیا اور اس کا اظہار اس ووٹر نے لیبر پارٹی کے خلاف غزہ جنگ روکنے کے حامی امیدواروں کو ووٹ ڈال کر کیا۔

یہی وجہ ہے کہ وو نشستیں جہاں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب دس فیصد سے زیادہ تھا وہاں لیبر پارٹی کے امیدواروں کے ووٹ میں گراوٹ دیکھی گئی اور پانچ نشستوں پر لیبر کو شکست کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

کنزروٹیو پارٹی کی حکومت میں برطانوی انڈین لابی نہایت مضبوط تھی اور اس کے مقابلے میں پاکستانیوں کا حکومت میں اثر و نفوذ نہ ہونے کے برابر تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ پاکستانی برٹش کمیونٹی روایتی طور پر لیبر پارٹی کی ووٹر رہی ہے اور یوں اس کو کنزروٹیو پارٹی میں ووٹنگ بلاک کے طور پر اہمیت حاصل نہیں۔

اگرچہ اس بار پاکستانی ووٹوں میں بھی تقسیم دیکھی گئی ہے لیکن لیبر کی طرف سے لڑنے والے بہت سے پاکستانی نژاد امیدوار الیکشن جیتنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

ان اراکین پارلیمان میں برمنگھم سے جیتنے والی شبانہ محمود بھی شامل ہیں جو لیبر پارٹی کی صف اول کی رہنما ہیں اور نئی بننے والی کابینہ کا بھی حصہ بنتی دکھائی دے رہی ہیں۔

اس کے علاوہ سکاٹ لینڈ میں پاکستانی صوبہ پنجاب کے سابق گورنر محمّد سرور کے بیٹے انس سرور بھی لیبر پارٹی کے ایک مضبوط لیڈر کے طور پر ابھر کے سامنے آئے ہیں۔

یوں یہ امید کی جا سکتی ہے کہ لیبر حکومت کے آنے سے پاکستان اور برطانیہ کے تعلقات میں مزید گرم جوشی پیدا ہو گی۔ 

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جن سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر