ریکارڈ تعداد میں برطانوی وزیر شکست کھا گئے

سابق وزیرِ اعظم لز ٹرس کے علاوہ ٹوری پارٹی کے نو وزرا اپنی نشستوں سے ہاتھ دھو بیٹھے جو ایک ریکارڈ ہے۔

سابق برطانوی وزیرِ اعظم لز ٹراس 22 فروری، 2024 کو نیشنل ہاربر، میری لینڈ میں سالانہ کنزرویٹو پولیٹیکل ایکشن کانفرنس کے دوران خطاب کر رہی ہیں (اے ایف پی)

برطانیہ کے عام انتخابات میں جمعے کے روز ریکارڈ تعداد میں کابینہ کے وزرا اپنی نشستیں ہار گئے، جس کے بعد اگر رشی سونک مستعفی ہو جاتے ہیں تو صرف چند واضح امیدوار کنزرویٹیو پارٹی کی قیادت کے لیے باقی بچ جائیں گے۔ 

کنزرویٹیوز کی بھاری شکست کے بعد وزیر اعظم رشی سونک کی مرکزی ٹیم کے نو اراکین دوبارہ منتخب ہونے میں ناکام رہے، اور اس طرح انہوں نے 1997 میں ہارنے والے سات اراکین کی سابقہ تعداد کا ریکارڈ توڑ ڈالا۔

برطانیہ کی سب سے کم عرصے تک وزیر اعظم رہنے والی لز ٹرس بھی اپنی نشست سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ ٹرس کی شکست ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب 2010 میں ٹوری پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ان کے تمام پیشروؤں کے حلقے یا تو لیبر یا لبرل ڈیموکریٹ بن گئے ہیں۔

برطانیہ کے دفاعی سیکریٹری گرانٹ شیپس، جو تقریباً ایک سال سے اس عہدے پر فائز تھے، ہارنے والے سب سے نمایاں امیدوار تھے۔ وہ لندن کے شمال میں ویلین ہیٹ فیلڈ کے حلقے سے شکست کھا گئے۔ 

دارالعوام کی رہنما پینی مورڈانٹ، جو پچھلے مئی میں شاہ چارلس سوم کی تاج پوشی میں تلوار بردار کے طور پر عالمی توجہ میں آئی تھیں، انگلینڈ کے جنوبی ساحل پر پورٹسمتھ نارتھ میں ہار گئیں۔ 

پینی مورڈنٹ سابق وزیرِ دفاع ہیں جنہوں نے دو بار ٹوری پارٹی کا رہنما بننے کی کوشش کی، اور امکان تھا کہ سونک کے استعفے کی توقع کے ساتھ جمعرات کے انتخابات کے بعد وہ دوبارہ کوشش کریں گی۔ 

ٹوری کے دوسرے اہم شکست خوردہ وزرا میں وزیر تعلیم جیلیئن کیگن، وزیر انصاف الیکس چاک، وزیر ثقافت لوسی فریزر اور ٹرانسپورٹ کی وزیر مشیل ڈونیلن شامل ہیں۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سینیئر وزیر جانی مرسر اور بریگزٹ کے سرکردہ کارکن جیکب ریس-موگ بھی ہار گئے، کیونکہ ووٹر 14 سال اقتدار میں رہنے کے بعد کنزرویٹوز سے تنگ آ چکے تھے۔ 

ان شکستوں نے دوبارہ منتخب ہونے والے اور جانے والے کنزرویٹوز میں خود احتسابی کو جنم دیا ہے، جنہوں نے کہا کہ پارٹی کو حالیہ برسوں میں متعدد سکینڈلوں اور اندرونی جھگڑوں کی سزا ملی ہے۔ 

سابق وزیر انصاف رابرٹ بکلینڈ نے اپنی نشست ہارنے کے بعد کہا، ’مجھے لگتا ہے کہ ہم نے ان انتخابات میں پارٹی کے اندر حیران کن بدنظمی دیکھی ہے۔‘ 

شیپس، جو 2005 سے ایم پی ہیں، انہوں نے بھی کنزرویٹوز کی ’اپنے اختلافات کو حل کرنے میں ناکامی‘ پر تنقید کی۔ ان کا کہنا تھا، ’آج رات میرے لیے یہ بات بالکل واضح ہے کہ یہ لیبر کی جیت نہیں بلکہ کنزرویٹوز کی ہار ہے۔‘ 

البتہ دائیں بازو کی سویلا بریورمین، جنہیں پچھلے برس کے آخر میں سونک نے وزیر داخلہ کے عہدے سے برطرف کر دیا تھا، دوبارہ منتخب ہو گئیں۔ اسی طرح وزیر خزانہ جیریمی ہنٹ بھی فتح حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ 

موجودہ وزیر داخلہ جیمز کلیورلی نے بھی اپنی نشست برقرار رکھی۔ 

وزیر برائے کاروبار اور تجارت کیمی بیڈنوچ اور سکیورٹی وزیر ٹام ٹوگنڈٹ بھی انتخابی دوڑ میں کامیاب رہے۔ 

توقع ہے کہ ان جیت جانے والے امیدواروں کے درمیان کنزرویٹو پارٹی کی قیادت کے مقابلہ ہو گا۔

بریورمین نے اپنی جیت کی تقریر میں ووٹروں سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ ٹوری پارٹی ووٹروں کی بات سننے میں ناکام رہی ہے۔ 

انہوں نے کہا، ’کنزرویٹو پارٹی نے آپ کو مایوس کیا۔۔۔ ہمیں بہتر کرنا ہو گا اور میں اپنی پوری طاقت سے اعتماد بحال کرنے کی کوشش کروں گی۔ ہمیں آپ کی بات سننی ہو گی۔ آپ نے ہمیں بہت واضح طور پر اپنی بات سنا دی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ