خیبر پختونخوا: انجنیئرنگ میں طلبہ کی دلچسپی میں کمی کیوں؟

خیبر پختونخوا کی انجنیئرنگ کی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں گذشتہ کچھ سالوں کے دوران داخلہ کے خواہشمند طلبا کی تعداد میں بتدریج کمی واقع ہوئی ہے۔

(یونیورسٹی آف انجنیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی پشاور فیس بک) 

خیبر پختونخوا میں سرکاری و نجی جامعات کے شعبہ انجنیئرنگ میں داخلے کے لیے سرکاری سطح پر ایجوکیشن ٹیسٹنگ اینڈ ایوالوایشن ایجنسی(ایٹا) کے زیر اہتمام ٹیسٹ میں صرف تین ہزار 895 امیدوار شریک ہوئے جو ماضی کے مقابلے میں بہت کم تعداد ہے۔ 

ایٹا کی جانب سے ہر سال میڈیکل اور انجنیئرنگ کالجز اور یونیورسٹیز میں داخلے کے لیے انٹری ٹیسٹ منعقد کیا جاتا ہے، جس کے نتائج کی بنیاد پر صوبہ میں میڈیکل اور انجنیئرنگ کالجوں اور یونیورسٹیں میں داخلے دیے جاتے ہیں۔

تاہم شعبہ انجنیئرنگ میں داخلے کے خواہشمند امیدواروں میں گذشتہ دس سالوں کے دوران نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے اور گذشتہ روز ہونے والے ٹیسٹ میں محض تین ہزار 895 امیدواروں نے امتحان دیا، جن میں سے تقریباً  500 کامیاب قرار دیے گئے۔

ایٹا کے اعداد و شمار کے مطابق 2023 میں چار ہزار 579 طلبا نے انجنیئرنگ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخلوں کے لیے ٹیسٹ دیے، جب کہ 2022 میں یہی تعداد چھ ہزار 800 اور 2021 میں آٹھ ہزار سے زیادہ تھی۔

2020 میں کرونا وبا کے باعث ایٹا ٹیسٹ منعقد نہیں کیا گیا تھا، جب کہ 2019 میں 11000 سے زیادہ طلبا ٹیسٹ میں شریک ہوئے اور 2018 میں ٹیسٹ میں شریک طلبہ کی تعداد 15 ہزار سے زیادہ تھی۔ 

یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ گذشتہ چند سالوں کے دوران شعبہ انجنیئرنگ کا انتخاب کرنے والے طلبا کی تعداد میں بتدریج کمی واقع ہو رہی ہے۔

خیبر پختونخوا میں تمام سرکاری انجنیئرنگ یونیورسٹیوں اور کالجوں، جن میں پشاور کی یونیورسٹی آف انجنیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی سر فہرست ہے، میں ہر سال دو ہزار طلبا کو داخلہ دینے کی گنجائش موجود ہے۔ 

اس سال کے ایٹا ٹیسٹ میں کامیاب ہونے والے تقریباً 500 کامیاب طلبا کے درمیان مقابلہ بہت آسان رہے گا اور تمام پاس ہونے والے امیدواروں کو انجنیئرنگ کے کسی نہ کسی شعبہ میں داخلہ مل جائے گا۔ 

انجینئرنگ کا شوق ختم ہو رہا ہے؟

انڈپینڈنٹ اردو نے انجنیئرنگ ٹیسٹ میں کم امیدواروں کی شرح کے حوالے سے بعض ماہرین اور متعلقہ یونیورسٹی کے منتظمین سے بات کر کے اس شعبہ میں عدم دلچسپی کی وجوہات جاننے کی کوشش کی۔

ڈاکٹر قیصر پشاور  کی یونیورسٹی آف انجنیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے وائس چانسلر ہیں اور ان کے مطابق انجنیئرنگ میں طلبا کی کم دلچپسپی کرونا وبا کے بعد دیکھنے کو ملی۔ 

ڈاکٹر قیصر علی کے خیال میں کرونا وبا کے بعد طلبا کا سافٹ سکلز کی جانب رجحان میں اضافہ ہوا، جن میں کمپیوٹر سائنسز، ڈیٹا سائنسز اور سافٹ ویئر انجنیئرنگ شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایسا صرف پاکستان میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں انجنیئرنگ پروگرامز میں داخلے کے رجحان میں کمی دیکھنے کو مل رہی ہے۔

وجوہات کے حوالے سے بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’ایک تو انجنیئرنگ کے شعبہ میں ملازمت کے مواقع کم ہیں جبکہ صنعتوں میں مہارت کی بنیاد پر چلائے جانے والے پروگرامز کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ 

ڈاکٹر قیصر علی نے بتایا کہ بین الاقوامی اور ملکی رجحانات کو دیکھتے ہوئے پشاور کی انجنیئرنگ یونیورسٹی میں سافٹ ویئر اور کمپیوٹر سائنسز جیسے شعبوں کی نشستیں میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید بتایا کہ اس کے علاوہ سافٹ ویئر انجنیئرنگ پروگرامز اور انٹیریئر ڈیزائننگ کے پروگرامز بھی لانچ کیے گئے ہیں۔

’اسی طرح انرولمنٹ بڑھانے کے لیے سال میں دو انٹری ٹیسٹ منعقد کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ طلبا کو زیادہ موقع میسر ہو سکیں۔ 

اسی یونیورسٹی کے ڈائریکٹر ایڈمیشنز ڈاکٹر خرم شیراز گذشتہ کئی برسوں کے دوران انجنیئرنگ کے نئے تعلیمی اداروں کے متعارف کیے جانے کو انرولمنٹ میں کمی کی ایک وجہ بتاتے ہیں، جس نے طلب اور رسد کے توازن متاثر کیا۔

ڈاکٹر خرم شیراز کے مطابق: ’قومی سطح پر بھی صنعتی ترقی اور میگا منصوبوں میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا، جس کی وجہ سے ملازمت کے مواقع متاثر ہوئے اور انجنیئرز بے روزگار رہے۔‘

ڈاکٹر خرم نے ایک اہم نکتے کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ نوجوان کمپیوٹر کی سافٹ ویر سکلز حاصل کر کے ملازمت کے بجائے فری لانسنگ سے کما رہے ہیں اور اسی وجہ سے انجنیئرنگ کا شعبہ متاثر ہوا۔

انہوں نے مزید بتایا، ’بڑھتی ہوئی غیر یقینی اقتصادی صورت حال اور اس کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی غربت نے بھی اعلیٰ تعلیم کے اخراجات کو قوت خرید سے باہر کر دیا ہے اور اب طلبا مختصر دورانیے کے کورسز اور ہنر سیکھنے کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ 

ڈاکٹر خرم شیراز کے مطابق اس بار پہلے ٹیسٹ امتحان میں کم امیدواروں  کی ایک وجہ انٹرمیڈیٹ کے پریکٹیکل امتحان کا جاری ہونا بھی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ  بہت سارے طلبا تیاری کا موقع نہ ملنے کی وجہ سے بھی امتحان میں شامل نہیں ہو پاتے۔

تاہم انہوں نے امید ظہر کی کہ 28 جولائی کے دوسرے امتحان میں ایسے طلبا شامل ہو سکیں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نئی نسل