بلوچستان: زرعی ٹیوب ویلز کی شمسی پینلز پر منتقلی کتنی مفید ہوگی؟

وزیر اعظم شہباز شریف نے بلوچستان کے دورہ کے دوران کوئٹہ میں صوبائی کابینہ کے اجلاس کو بتایا کہ معاہدہ کے تحت پورے صوبہ میں 28 ہزار سے زیادہ زراعت میں استعمال ہونے والے ٹیوب ویلز کو چلانے کے لیے بجلی کے بجائے سولر پینلز کا استعمال کیا جائے گا۔ 

10 مارچ 2012 کی اس تصویر میں اسلام آباد کے ایک پارک میں لگائے گئے شمسی پینلز سے چلنے والے ٹیوب ویلز دکھائے جا رہے ہیں (اے ایف پی)

پاکستان کی وفاقی اور بلوچستان حکومتوں نے صوبے میں زرعی ٹیوب ویلز کو برقی بجلی سے شمسی پینلز (سولارائزیشن) پر منتقل کرنے کے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے بلوچستان کے دورہ کے دوران کوئٹہ میں صوبائی کابینہ کے اجلاس کو بتایا کہ معاہدہ کے تحت پورے صوبے میں 28 ہزار سے زیادہ زراعت کے لیے استعمال ہونے والے ٹیوب ویلز کو چلانے کے لیے بجلی کی بجائے سمشی پینلز کا استعمال کیا جائے گا۔ 

انہوں نے کہا کہ یہ سارا عمل 55 ارب روپے (70 فیصد وفاق اور 30 فیصد صوبہ) کی لاگت سے تین مہینوں میں مکمل ہوگا۔

انہوں نے مزید کہا: ’اگلے مرحلے میں پورے ملک میں 10 لاکھ زرعی ٹیوب ویلوں کو سولر سسٹم پر منتقل کیا جائے گا۔‘

وزیراعظم محمد شہباز شریف کے اس اعلان پر کسانوں نے خوشی کا اظہار کیا ہے تاہم بعض ماہرین نے اس منصوبے کو صوبے کی زراعت اور زیر زمین موجود پانی کے لیے نقصان دہ قرار دیا ہے۔

بلوچستان یونیورسٹی میں جیالوجی ڈپارٹمنٹ کے سابق سربراہ ڈاکٹر دین محمد کاکڑ نے کے خیال میں زرعی ٹیوب ویلز کی سمشی توانائی پر منتقلی کا عمل بغیر منصوبہ بندی کے شروع کیے جانے کے باعث صوبہ کے لیے نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔

اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سولر پینلز لگانے کے بعد اگر خشک سالی کی موجودہ صورت حال برقرار رہی اور ڈیم نہ بنائے گئے تو پانچ سال بعد شمسی پینلز کی مدد سے بھی سے پانی نکالنا مشکل ہو جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ بارشوں کے باعث بلوچستان کے بعض علاقوں میں زیر زمین سطح قدرے بہتر ہوئی ہے لیکن میدانی علاقوں کی صورت حال بتدریج خراب ہے۔

ڈاکٹر دین محمد کاکڑ نے مزید کہا کہ زرعی ٹیوب ویلز کی سولارائزیشن سے قبل صوبائی حکومت کو مسلسل پانی نکالنے سے نقصان کا اندازہ لگانے کی غرض سے سروے کروانا چاہیے تھا۔ 

انہوں نے کہا کہ پورے دن (24 گھنٹوں) میں چھ گھنٹے چھ گھنٹے زیر زمین پانی نکالا جائے تو تو کم از کم بچت ہو سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس عمل سے زراعت کا بیڑہ غرق ہوجائے گا نہ صرف زراعت تباہ ہوگی بلکہ عوام کو پینے کے لیے بھی پانی دستیاب نہیں ہوگا جس کی وجہ سے بہت بڑی آبادی کو نقل مکانی کرنی پڑے گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

زمیندار ایکشن کمیٹی کے جنرل سیکریٹری عبدالرحمن بازئی نے زرعی ٹیوب ویلوں کی سولارائزیشن کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں 2005 درخواستیں دی گئیں تھیں جن پر کوئی توجہ نہیں دی گئی اور 25 سال میں 600 ارب روپے کا نقصان ہوا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ زرعی ٹیوب ویلز کی سولارائزیشن میں تاخیر کے باعث ایک کروڑ 75 لاکھ سیب اور دیگر پھلوں کے درخت خشک ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ 25 سالوں سے بلوچستان کو خشک سالی کا سامنا ہے لیکن وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے بارشوں اور سیلاب کے پانی کو روکنے اور دوبارہ قابل استعمال بنانے کے سلسلے میں خاطرخواہ اقدامات نہیں کیے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ہر سال ایک کروڑ ایکڑ فٹ سے زیادہ پانی ضائع ہوتا ہے اور اگر حکومت ڈیم بنائے اور ضائع ہونے والے پانی بچائے تو زیر زمین ری چارجنگ ہو جائے گی۔

عبدالرحمن بازئی نے بتایا کہ بجلی سے چلنے والے ٹیوب ویلز کی بجلی پر ہر سال 90 ارب روپے سبسڈی دی جا رہی ہے لیکن اس سے کسان اور زراعت کو فائدہ نہیں پہنچ رہا۔

ان کے خیال میں شمسی پینلز لگانے سے صوبے کو ان 90 ارب روپے کی بچت ہو گی۔

زمیندار حبیب اللہ ترین کا کہنا تھا کہ پانی سٹوریج نہ ہونے کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے، جس پر تشویش ہے۔

 ’وزیراعظم کے فیصلے کو ہم با امر مجبوری اس لیے خوش آئند قرار دے رہے ہیں کہ کسانوں کے پاس دوسرا کوئی آپشن موجود نہیں ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ سولر پینلز بھی مسئلے کا مستقل حل نہیں ہیں اور حکومت کو ہنگامی بنیادوں پر ڈیم بنانے کی طرف توجہ دینا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ محکمہ زراعت کے اہلکاروں کو فیلڈ میں جا کر کسانوں کو بہتر کاشت کاری سے متعلق معلومات فراہم کریں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی