آبادی کا عالمی دن: پاکستان کو عوام کا اعتماد بحال کرنے کی ضرورت

اقوامِ متحدہ کے اس سال آبادی کے دن کا تھیم ’کسی کو پیچھے نہ چھوڑو، ہر ایک کو شمار کرو‘ ہے۔

11 جولائی 2017 کو آبادی کے عالمی دن کے موقع پر کراچی میں ایک پاکستانی خاندان موٹر سائیکل پر سفر کر رہا ہے۔ عالمی بینک اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ شرح پیدائش والا ملک ہے (آصف حسین/اے ایف پی)  

دنیا کی آبادی آٹھ ارب سے تجاوز کر چکی ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ہمیں ایک ارب ہونے میں لاکھوں سال لگے لیکن اس سے آگے کا سفر ہم نے محض دو سو سال کے قلیل عرصے میں طے کیا۔

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے 

اقوامِ متحدہ کے مطابق اگر دنیا کی آبادی میں ایسے ہی اضافہ ہوتا رہا تو ہم 2030 میں ساڑھے آٹھ ارب، 2050 میں 9.7 ارب، اور 2100 میں 10.9 ارب ہو جائیں گے۔

اگر ہم نے اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کو قابو نہ کیا تو ہم شدید مسائل کا شکار ہوں گے جن میں سے بہت سے ہمارے سامنے آ بھی چکے ہیں۔ ان میں سب سے اہم موسمیاتی تبدیلیاں ہیں۔ دنیا بھر میں اس وجہ سے اربوں لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔

اسی لیے اقوامِ متحدہ ہر سال 11 جولائی کو آبادی کا عالمی دن مناتی ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد آبادی کے بڑھنے سے پیدا ہونے والے مسائل اور حل کو اجاگر کرنا ہے۔ ہر سال اس دن کا ایک الگ تھیم ہوتا ہے۔ اس سال اس دن کا تھیم ’کسی کو پیچھے نہ چھوڑو، ہر ایک کو شمار کرو‘ ہے۔

ہر ایک کا شمار ہو گا تو ہمیں اپنی آبادی کے بارے میں مکمل معلومات حاصل ہوں گی اور ہم انہیں درپیش مسائل کا مناسب حل تلاش کر پائیں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان میں مردم شماری ایک بہت بڑا مسئلہ رہی ہے۔ پاکستان میں 18 سال بعد سنہ 2017 میں ملک کی چھٹی مردم شماری ہوئی تھی۔ اس مردم شماری میں پہلی بار خواجہ سراؤں کو بھی شامل کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے انہیں ملک کی آبادی میں شامل کرنے کا کوئی انتظام موجود نہیں تھا۔

اس مردم شماری میں معذور افراد کی شمار بندی پر اعتراضات اٹھائے گئے تھے۔

2023 میں پاکستان میں پہلی بار ڈیجیٹل مردم شماری کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اس کا مقصد مردم شماری کے عمل میں شفافیت لانا تھا۔ تاہم بہت دیر کر دی مہرباں آتے آتے کے مترادف اتنی دیر میں عوام کا حکومتی اقدامات سے یقین اٹھ چکا تھا۔ 

پاکستان میں مردم شماری عوام کو جاننے اور پھر اس ڈیٹا کی بنیاد پر ان کے لیے کام کرنے کی بجائے سیاسی فوائد حاصل کرنے کا ذریعہ بن چکی ہے۔

 نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ کا بڑا حصہ آبادی کی بنیاد پر صوبوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اسمبلیوں میں اراکین کی تعداد بھی صوبوں کی آبادی کے لحاظ سے ہوتی ہے۔

ان وجوہات کی بنا پر سیاسی جماعتیں مردم شماری کے عمل میں کسی بھی قسم کی تبدیلی پر سخت ردِ عمل کا اظہار کرتی ہیں۔

حکومت بھی اس عمل میں تبدیلی لاتے ہوئے ان کے تحفظات کو دیکھتی ہے۔ ایسے میں عوام کی فلاح و بہبود اور ترقی کا خیال کہیں دور رہ جاتا ہے۔

ملک کی پہلی ڈیجیٹل مردم شماری کے لیے نادرا نے  ایک جامع انفارمیشن ٹیکنالوجی پر مبنی حل تجویز کیا تھا۔ اس کے تحت یہ مرد شماری اینڈروئیڈ سمارٹ ڈیوائسز کا استعمال کرتے ہوئے انجام دی گئی تھی۔ اس میں اینڈروئیڈ پر مبنی ہاؤس لسٹنگ اور گنتی کی ایپلی کیشن کو جی پی ا یس اور جی آی ا یس کے ساتھ ہم آہنگ کیا گیا تھا۔

ہماری آبادی کی ایک بڑی تعداد مردم شماری پر بھروسہ نہیں کرتی۔ حکومت کی طرف سے عوام کو اس قدر نظرانداز کیا گیا ہے کہ انہیں یقین ہی نہیں رہا کہ وہ ان کے لیے کوئی کام کر سکتی ہے۔

شمار کنندگان اپنے سمارٹ ڈیوائسز کے ساتھ گھر گھر جا کر لوگوں کا شمار کر رہے تھے۔ انہیں اس دوران کئی مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ کئی جگہوں پر انٹرنیٹ موجود نہیں تھا۔ کئی جگہوں پر جی پی ایس سگنل نہیں آ رہے تھے۔ خیر سسٹم بنا کر دے دیا گیا تھا۔ آگے ان کا کام اسے چلانا تھا۔ انہوں نے جیسے تیسے کر کے اپنا کام نبٹا لیا۔

اس مردم شماری میں لوگوں کو خود سے بھی اپنی تفصیلات حکومت کے ڈیٹا بیس میں ڈالنے کی سہولت دی گئی تھی۔ بہت سے لوگوں نے سسٹم میں اپنا ڈیٹا خود ڈالا تھا۔

تاہم، ہماری آبادی کی ایک بڑی تعداد مردم شماری پر بھروسہ نہیں کرتی۔ حکومت کی طرف سے عوام کو اس قدر نظرانداز کیا گیا ہے کہ انہیں یقین ہی نہیں رہا کہ وہ ان کے لیے کوئی کام کر سکتی ہے۔

دور دراز علاقوں میں ہر ایک تک پہنچنا پہلے ہی مسئلہ ہے۔ پھر ان سے ان کی ذاتی معلومات پوچھنا بھی مشکل ہے۔ جب عوام کو حکومتی مشقوں کا فائدہ نظر نہیں آتا تو وہ ان میں دلچسپی لینا چھوڑ دیتے ہیں۔

حکومت کو عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیے مردم شماری کے عمل کو سیاسی مفاد کی بجائے عوامی مفاد سے جوڑنے کی ضرورت ہے۔ مردم شماری کرتے ہوئے یقینی بنایا جائے کہ اس میں سب کا شمار کیا جائے۔ ساتھ ہی ساتھ معاشی شمار بندی بھی کی جائے اور نتائج کی بنیاد پر لوگوں کے لیے دوستانہ پالیسیاں بنائی جائیں۔

لوگ بےبسی کی زندگی گزار گزار کر تنگ آ چکے ہیں۔ قربانیوں کا سلسلہ تحریکِ آزادی کے بعد ختم ہو جانا چاہیے تھا لیکن ہمارے ملک کو چلانے والے ہم سے اب تک قربانیاں وصول کر رہے ہیں۔ غالباً یہ ہماری اس ملک میں پیدا ہونے اور رہنے کی سزا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ